کراچی(رفیق مانگٹ)ٹرمپ نوبل امن انعام سے کیوں محروم ہوئے؟۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق انعام کیلئے نامزدگی 31 جنوری کو بند ہوئی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو صدر بنے، ٹرمپ کی جانب سے نوبل انعام کیلئے کھلے عام مہم چلانا بھی ناکامی کی وجہ ہو سکتی ہے، یہ فیصلہ ٹرمپ کے لئے ایک علامتی دھچکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیٹی آخری لمحات میں کسی نئے معاہدے کی بنیاد پر فیصلہ تبدیل نہیں کرتی۔ نوبل کمیٹی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات ابھی نوبل کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔نوبل کمیٹی سربراہ کا کہنا ہے کہ فیصلہ ہمیشہ میرٹ پر ہوتا ہے، نہ کہ کسی مہم یا میڈیا دباؤ کے تحت۔ تفصیلات کے مطابق نوبل امن انعام دینے والی نارویجن کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2025 کا ایوارڈ نہ دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے حالیہ اقدامات ابھی نوبل کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ یہ ان کی دوسری صدارتی مدت میں اشرافیہ کی جانب سے ایک اور نمایاں مسترد کیا جاناسمجھا جا رہاہے۔برطانوی اخبار کے مطابق، نوبل امن انعام کے لئے نامزدگیاں 31 جنوری کو بند ہوئی تھیں، جبکہ ٹرمپ 20 جنوری کو صدر بنے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے حالیہ امن اقدامات، جیسے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی، اس سال کے ایوارڈ کے دائرے میں شامل نہیں ہو سکے۔ہنری جیکسن سوسائٹی کے محقق تھیئو زینو نے کہا،نوبل امن انعام کئی ماہ کی تحقیق اور غور و خوض کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کمیٹی آخری لمحات میں کسی نئے معاہدے کی بنیاد پر فیصلہ تبدیل نہیں کرتی۔زینو کے مطابق، ٹرمپ کی جانب سے نوبل انعام کے لئے کھلے عام مہم چلانا بھی ان کی ناکامی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ نوبل کمیٹی اپنی آزادی اور غیر جانب داری کو دباؤ سے بالاتر رکھنا چاہتی ہے۔ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو موکھیفی ایشٹن نے اس فیصلے کو ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ٹرمپ کے حامیوں اور ناقدین دونوں کو مطمئن کرنے کی کوشش ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ وینزویلا کی سوشلسٹ حکومت کے خلاف ماچاڈو کی حمایت کرتے رہے ہیں۔دوسری جانب، نوبل کمیٹی کے سربراہ یورگن واٹنے فرائیڈنیس نے جمعہ کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کا فیصلہ الفریڈ نوبل کی خواہشات اور امن کے حقیقی معیارات پر مبنی تھا۔ٹرمپ کی نوبل میں دلچسپی 2009 میں اس وقت بڑھی تھی جب ان کے سیاسی حریف باراک اوباما کو صدر بننے کے فوراً بعد یہ اعزاز دیا گیا تھا۔ اس وقت سے ٹرمپ اسے ایک غیر منصفانہ اور اشرافیہ نواز نظام قرار دیتے آئے ہیں، جو ان کی دوسری مدتِ صدارت میں مزید ناپسندیدگی کا باعث بنا۔ماہرین کے مطابق، اگر ان کے امن معاہدے پائیدار ثابت ہوئے تو 2026 کا نوبل ایوارڈ ان کے لئے نیا موقع بن سکتا ہے۔