• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(سائنس، فلسفہ اور مذہب)

مصنّف: رفیع مصطفیٰ

صفحات: 377، قیمت: 1500 روپے

ناشر: کوہی گوٹھ پبلی کیشنز، کوہی گوٹھ ویمن اسپتال، دیہہ لانڈھی، کراچی۔

’’ یہ کتاب انسانی شعور میں پیدا ہونے والے اُن گہرے سوالات کا احاطہ کرتی ہے، جو کائنات کی وسعت، ترتیب اور پیچیدگی کو دیکھ کر ہمیشہ جنم لیتے رہے ہیں: کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس کی تخلیق کے پیچھے کون سی قوّت کارفرما تھی؟ کیا یہ قوانینِ فطرت، جو کائنات کو چلا رہے ہیں، محض ایک اتفاقیہ عمل کا نتیجہ ہیں یا کسی غیر مرئی منصوبہ بندی کا حصّہ ہیں؟ 

اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا وہ غیر مرئی قوّت، جس نے اِن قوانین کی تشکیل کی، کائنات کی تخلیق کے بعد اس سے لاتعلق ہوگئی یا اب بھی اسے چلانے میں فعال کردار ادا کر رہی ہے؟ اِس کتاب کا بنیادی مقصد اِن سوالات کو ایک متجسّس قاری کے ذہن میں جگانا اور ان کے جوابات کے لیے سائنس، فلسفہ اور مذہب کے زاویوں سے روشنی فراہم کرنا ہے۔ 

یہ کتاب قاری کو کائنات کی حقیقتوں کے ایک ایسے فکری سفر پر لے جاتی ہے، جو تجسّس سے شروع ہوتا، تحقیق سے گزرتا اور حیرت پر ختم ہوتا ہے۔‘‘مصنّف کی اِن تعارفی سطور سے زیرِ نظر کتاب کے موضوع اور وجۂ تصنیف سے بھرپور آگاہی ہوجاتی ہے۔ رفیع مصطفیٰ نے یونی ورسٹی آف برٹش کولمبیا سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی۔ برطانیہ، پاکستان، کینیڈا اور سوڈان کی یونی ورسٹیز میں پڑھاتے رہے۔ تین ناولز اور متعدّد مختصر کہانیاں لکھ چُکے ہیں۔ 

ایک آئی ٹی کمپنی کے بانی اور صحت و تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی ایک معروف فاؤنڈیشن سے اہم حیثیت میں وابستہ ہیں۔ اِن کا فکری سفر بائیں بازو کی ذہنی اسیری سے شروع ہوا، پھر کئی منازل و مقامات سے ہوتا ہوا مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی تک پہنچا، جن کے فکری توازن نے اُنھیں بے حد متاثر کیا۔ رفیع مصطفیٰ کے مطابق’’سائنس اور خدا ایک دوسرے کے متضاد نہیں، بلکہ کائنات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ایک دوسرے کے معاون ہیں۔‘‘

اِس بیانیے سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کائنات، اِس کی تخلیق اور نظام کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ کتاب چار حصّوں یا ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلا حصّہ قوانینِ فطرت کے عنوان سے ہے، جس میں محوِ تماشا، دورِ آگہی، سائنس اور مذہب کا ٹکراؤ کی ذیلی سرخیوں کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔حصّہ دوم، قوانینِ حرکت کے نام سے ہے اور اِس کی ذیلی سرخیاں حرکت میں برکت، ایٹم اور سالمے، کوانٹم میکانیات، برق اور عصرِ حاضر کے نظریات پر مشتمل ہیں۔

حصّہ سوم کا عنوان پوشیدہ کائنات اور ذیلی بنیادی قوّتیں، کائناتی اجسام اور کائنات میں توازن منتخب کی گئی ہیں، جب کہ آخری حصّہ، کیا کوئی خالق ہے؟ کے عنوان سے ہے، جس میں خالق کی تلاش اور مذہب کا دائرہ جیسے اہم موضوعات زیرِ بحث آئے ہیں۔ مصنّف اپنی بات کہنے کے سلیقے سے آشنا ہیں، اِسی لیے مشکل موضوعات کا بھی نہایت خوش اسلوبی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے جہاں مذہب کا سہارا لیا ہے، وہیں سائنسی پیش رفت بھی نظروں کے سامنے رہی ہے۔

سقراط، افلاطون اور ارسطو کے ساتھ، نیوٹن، آئن اسٹائن اور ہاکنگ بھی مختلف اوراق پر نظر آتے ہیں۔ پھر یہ کہ مصنّف نے اپنے تجربات کی بنیاد پر بھی مختلف نتائج اخذ کیے ہیں، جنہیں کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نیز، وہ اپنی رائے کسی پر زبردستی تھوپنے کے خواہش مند نظر نہیں آتے، اِسی لیے کتاب میں کہیں مناظرانہ رنگ نظر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر خالد سہیل جیسے متضاد رائے رکھنے والوں نے بھی رفیع مصطفیٰ کے اسلوب اور محنت کی توصیف کی ہے۔ اِس کتاب کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کراچی کی پس ماندہ بستی، کوہی گوٹھ میں قائم خواتین کے ایک اسپتال کے لیے وقف ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید