مرتّب: جمیل اطہر قاضی
صفحات: 320، قیمت: 4000 روپے
ناشر: بُک ہوم، 46-مزنگ روڈ، بُک اسٹریٹ، لاہور۔
فون نمبر: 428780 - 0301
مصطفیٰ صادق، پاکستان کے سینئر ترین صحافی ہونے کے ساتھ، قومی سیاست کے ایک اہم کردار بھی تھے۔ ایک زمانے میں اُن کے اخبار کا بہت چرچا تھا، خاص طور پر بھٹّو حکومت کے خلاف چلنے والی’’تحریکِ نظامِ مصطفیٰ‘‘ میں اُن کے ادارے نے بہت کُھل کر اپوزیشن کا ساتھ دیا، جس پر اُن کے اخبار نے فروخت کے ریکارڈ قائم کیے۔ دوسری طرف، وہ بھٹو صاحب کے قریب بھی تھے اور ایک زمانے میں اُنھوں ہی نے اُن کی مولانا مودودی سے ملاقات کروائی تھی۔
پھر جنرل ضیاء الحق کے وزیر بنے۔ بے نظیر بھٹو، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، شریف برادران اور چوہدری صاحبان کے ساتھ، مذہبی رہنماؤں سے بھی گہری قربتیں رہیں۔یوں اُنھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور زیرِ نظر کتاب میں اُن کی زندگی کے کچھ ایسے ہی گوشے سامنے لائے گئے ہیں۔
کتاب کے آغاز میں’’اظہارِ تشکّر‘‘ کے عنوان سے ابرار مصظفیٰ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت علی رازی کے پاس مصطفیٰ صادق کا کوئی انٹرویو موجود تھا، جو اُن سے حاصل کیا گیا اور پھر اُس کی بنیاد پر سوانح حیات ترتیب دینے کا کام آگے بڑھایا گیا۔
ابھی مجیب الرحمٰن شامی کی اصلاح کے ساتھ اُس مسوّدے پر کام جاری تھا کہ مذکورہ انٹرویو ہفت روزہ’’عزم‘‘ میں شایع ہوگیا۔ بعدازاں، جمیل اطہر نے ’’داستانِ صادق‘‘ کے نام سے جس مسودّے کو حتمی شکل دی، وہ زیرِ نظر کتاب کی صُورت سامنے ہے۔ مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ’’ مصطفیٰ صادق کو اپنے ادارے سے زیادہ قومی سیاست سے دل چسپی تھی، وہ پسِ پردہ کردار کے تمنّائی رہے۔
متحارب سیاسی قوّتوں کو قریب لانا، ناخنِ تدبیر سے گتھیاں سلجھانا، اُن کا محبوب مشغلہ تھا، جسے وہ قومی فریضہ سمجھ کر ادا کرتے۔‘‘مولانا مفتی تقی عثمانی نے اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا ہے کہ’’مصطفیٰ صادق کی اصل خصوصیت اُن کا وہ درد مند دل تھا، جو مُلک وملّت کی اصلاح و فلاح کے لیے تڑپتا رہتا تھا اور اس تڑپ میں وہ اُنہیں مُلک کے نام وَر سیاست دانوں سے لے کر سربرآوردہ علماء تک ہر ایک کی دہلیز پر لے جاتا۔‘‘
ڈاکٹر مغیث الدّین شیخ کے مطابق’’وہ اپنے دوستوں کے دل و دماغ پر ایسے نقوش چھوڑ گئے، جنہیں شاید کبھی مِٹایا نہ جاسکے۔‘‘کتاب سات ابواب سوانح حیات، جماعتِ اسلامی، ذوالفقار علی بھٹّو، جنرل ضیاء الحق، مضامین/کالم، سوئے حرم اور مصطفیٰ صادق احباب کی نظر میں، کے عنوانات کے تحت تقسیم کی گئی ہے۔
ہر باب اِس لحاظ سے قومی، سیاسی، تاریخی معلومات سے بھرپور ہے کہ مصطفیٰ صادق نے اِن میں سیاسی و مذہبی زعماء اور حکومتی شخصیات سے اپنی ملاقاتوں اور مختلف واقعات کا احوال بیان کیا ہے، جو کہیں اور دست یاب نہیں۔
گویا یہ’’خود نوشت‘‘ ایک قومی، سیاسی دستاویز بھی ہے، جس کے مطالعے سے کئی معاملات زیادہ واضح طور پر سامنے آتے ہیں، جن کی بنیاد پر مُلکی سیاست و تاریخ کے تجزیے میں سہولت ہوگی۔ نیز، جمیل اطہر نے’’وفاق کی کہانی‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں مُلکی صحافتی تاریخ کا ایک قیمتی باب سپردِ قلم کیا ہے، جب کہ کتاب میں کئی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں اور اُن سے بھی مصطفیٰ صادق کی شخصیت کی ہمہ گیریت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔