پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے انڈسٹریلائزیشن صرف ترقی اور خوشحالی کا راستہ نہیں ہے بلکہ یہ ملکی معاشی خودمختاری کیلئے بھی اہم ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچوں بڑا ملک ہونے کے ناطے ہمیں اپنے نوجوان طبقے کو کارآمد شہری بنانے کیلئے انڈسٹریلائزیشن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں ہر سال تقریبا 20لاکھ سے زیادہ نوجوان پہلے سے روزگار کی تلاش میں سرگرداں افرادی قوت کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ زراعت اور غیر رسمی خدمات فراہم کرنیوالے شعبوں میں اس بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنے کی سکت پہلے ہی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسلئے انڈسٹریلائزیشن سے برآمدات بڑھانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی محصولات میں اضافہ اور تجارتی خسارے میں کمی کیلئے اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین، ویتنام، بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے بھی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے کر پائیدار ترقی اور عالمی مسابقت میں برتری حاصل کی ہے۔ اسکے برعکس پاکستان میں انڈسٹریلائزیشن دو دہائیوں سے جمود کا شکار ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ تقریباً 20.7 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش کا صنعتی شعبہ قومی جی ڈی پی میں 34.6 فیصد اور ویتنام کا صنعتی شعبہ 37.12فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ علاوہ ازیں ورلڈ بینک کے مطابق 1980 ءمیں پاکستان کی فی کس آمدنی 287.4 ڈالر اور چین کی 194.8ڈالر تھی۔ تاہم 2023ء میں چین کی فی کس آمدنی 12614 ڈالر ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1365ڈالر پر رکی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال اس وجہ سے بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں سی پیک کا منصوبہ شروع ہونے کے بعد اسپیشل اکنامک زونز اور انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کرنے کے باوجود انڈسٹریلائزیشن اور سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور الیکٹرک وہیکلز کو فروغ دینے کی حکومتی پالیسی کے باعث سولر پینلز، الیکٹرک اپلائنسز، آٹو پارٹس اور زرعی مشینری کی مقامی مینوفیکچرنگ کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ اس سے لاجسٹکس، فنانس، تعلیم اور تعمیرات جیسے متعلقہ شعبوں کو بھی ترقی دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں تاحال کوئی بڑی پیشرفت سامنے نہیں آ سکی ہے اور ان شعبوں میں ہم ایک صارف ریاست بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کے پاس علاقائی مینوفیکچرنگ اور لاجسٹکس کا اہم مرکز بننے کی اہلیت اور مواقع موجود ہیں۔ تاہم اس کیلئے ملک کی صنعتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے، کاروبار دوست پالیسیاں تشکیل دینے اور سستی توانائی کی فراہمی ضروری ہے۔
اس حوالے سے سی پیک کے تحت بننے والے اسپیشل اکنامک زون گیم چینجر ثابت ہو سکتے تھے لیکن ان کی انتظامی عدم فعالیت، ترقیاتی کاموں میں سست روی اور یوٹیلٹی سروسز کی فراہمی میں تاخیر کے باعث ان میں چینی صنعتوں کی منتقلی اور سرمایہ کاری کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ ان اسپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری پر اگرچہ محصولات اور ڈیوٹی میں نمایاں چھوٹ کی سہولت دی گئی ہے۔ تاہم اس کے لئے سرکاری محکموں کا کاروبار دوست رویہ، قابل اعتماد انفراسٹرکچر، سستی توانائی اور مارکیٹ تک رسائی کے عوامل بھی اہم ہیں۔ علاوہ ازیں ورلڈ بینک کی ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ 2022 ءکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار 34ٹیکسوں کے تابع ہیں جو کہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں 26.8کی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ اسی طرح ٹیکس پالیسی،ا سپیشل اکنامک زونز کے قواعد و ضوابط اور تعمیل کے طریقہ کار میں بار بار تبدیلیوں نے بھی طویل مدتی منصوبہ بندی کو مشکل بنا دیا ہے۔ فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ مینجمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے چیئرمین کی حیثیت میں مجھے خود ان چیلنجز کا ذاتی طور پر سامنا رہا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بطور چیئرمین فیڈمک کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو بھی بہتری کے لئے بارہا تجاویز پیش کی ہیں لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی نمایاں بہتری نظر نہیں آ رہی ہے۔
موجودہ حالات میں ان مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ٹارگٹڈ روڈ شوز اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی پر مبنی قانون سازی ضروری ہے۔ طویل مدت کے لئے انڈسٹریلائزیشن میں سرمایہ کاری کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ اس لئے ملک میں ایسا ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں کاروباری ادارے محفوظ محسوس کریں اور انہیں یقین ہو کہ ان کا سرمایہ اور محنت سیاسی کشمکش کی بھینٹ نہیں چڑھے گا۔ علاوہ ازیں بلیک مارکیٹ کی نذر ہونے والے سرمائے کو ملکی معیشت کا حصہ بنانے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی دے کر لوگوں کو غیر علانیہ دولت کو ملک کے معاشی نظام کا حصہ بنانے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور غربت کی شرح میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان انڈسٹریلائزیشن میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ ملازمتیں، برآمدات اور معاشی استحکام پائیدار اور وسیع پیمانے پر انڈسٹریلائزیشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ترقی کے موجودہ ماڈل کو جو کہ انفراسٹرکچر، ریگولیشن اور سرمایہ کاروں کی مدد کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹیکس مراعات پر زیادہ زور دیتا ہے تبدیل ہونا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ نہ صرف فیکٹریوں اور برآمدات بڑھانے کیلئے بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ اور خوشحال بنانے کیلئے بھی انڈسٹریلائزیشن پر توجہ دی جائے۔ انڈسٹریلائزیشن کے بغیر ملک میں معاشی استحکام اور خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس کیلئے صنعتی پالیسیوں کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کو معاشی میدان میں بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت بنایا جا سکے۔