پشاور (ارشد عزیز ملک )وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل فریدی نے علی سطح اجلاس میں عدم شرکت کرکے نہ صرف خیبر پختونخوا کے مالی اور انتظامی مسائل اجاگر کرنے کا موقع ضائع کیا بلکہ وفاق کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا ایک واضح پیغام دیا ہے ۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ صوبے کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں وزیراعلیٰ کو ایسے اہم فورمز پر فعال کردار ادا کرنا چاہئے تھا تاکہ خیبر پختونخوا کے عوام کے مفادات مؤثر انداز میں پیش کیے جا سکیں۔وزیر اعلی سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ عمران خان سے ملاقات سے پہلے شرکت عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہو گی وفاقی حکومت کی زراعت اور افغان مہاجرین کے حوالے سے میٹنگ میں ذاتی طور پر شرکت سے اس لیے معذرت کی ہے ۔اسلام آباد میں جمعے کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقدہ اہم وفاقی اجلاس میں ملکی سلامتی، افغان مہاجرین کی واپسی اور پاک افغان سرحدی کشیدگی سمیت کئی حساس امور پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر سمیت تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے، تاہم خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل فریدی کی غیر حاضری نے سیاسی اور انتظامی حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق سابق مشیر خزانہ مزمل اسلم نے اجلاس میں شرکت کی اور صوبے کے مسائل کو اجاگر کیا-ذرائع کے مطابق سہیل فریدی نے بطور وزیراعلیٰ اپنے پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت نہ کرکے ایک اہم موقع ضائع کیا۔موجودہ حالات میں وفاق اور صوبے کے درمیان محاز آرائی نقصان دہ ہو گی اجلاس میں وہ صوبے میں امن و امان، فوجی آپریشنز، اور پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے خیبر پختونخوا کا مؤقف پیش کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے پر بھی بات کر سکتے تھے کیونکہ خیبر پختونخوا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے۔صوبے میں گندم اور آٹے کے بحران اور سئلیلاب کی تباہ کاریوں کا معاملہ اٹھاکر عوام کو ریلیف دے سکتے تھے لیکن انھوں نے ایک اہم موقع ضائع کر دیا تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ وفاق کے ذمے خیبر پختونخوا کے تقریباً ڈھائی سو ارب روپے کے بقایاجات ہیں۔ اگر سہیل فریدی اجلاس میں شریک ہوتے تو وہ صوبے کے مالی حقوق کے لیے مضبوط کیس پیش کر سکتے تھے۔ ساتھ ہی وہ نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے حوالے سے بھی بات کر سکتے تھے، جس کی تشکیل نو مکمل ہو چکی ہے لیکن اجلاس تاحال منعقد نہیں ہو سکا۔ پچھلا اجلاس سیلاب کے باعث ملتوی ہوا تھا، اور صوبے کی جانب سے اس معاملے کو دوبارہ اٹھانا ناگزیر سمجھا جا رہا تھا۔