• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

18اکتوبر ۔ پر امن عوامی انقلاب کا استعارہ

تحریر… شرجیل انعام میمن

وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ ، حکومت سندھ

18 اکتوبر 2007ءکا دن پر امن عوامی جمہوری انقلاب کو دہشت گردی کے ذریعہ روکنے کا تاریخی استعارہ ہے ۔ اس دن کراچی کی شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر جو عظیم سانحہ رونما ہوا ، اگر یہ نہیں ہوتا تو آج نہ صرف پاکستان بلکہ ہمارے خطے خصوصاً عالم اسلام کے حالات مختلف ہوتے ۔ خود شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس سانحہ کو ” اسلامی دنیا کی داخلی کشمکش ، اسے درپیش بحرانوں اور وہاں جمہوریت کی افزائش کو روکنے کی کوشش کا نتیجہ “ قرار دیا ۔اس دن ایک ایسا منظر تھا ، جو تاریخ میں کبھی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ 8سالہ جلا وطنی کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کراچی کی سڑکوں پر امڈ آیا تھا ۔ کراچی پاکستان کا بڑا اور انتہائی وسیع شہر ہے لیکن اس دن کراچی کی وسعت کم پر گئی تھی ۔ جب شہید بی بی کراچی ایئرپورٹ پر پہنچیں تو وہاں لاکھوں کا مجمع پہلے سے موجود تھا جبکہ لاکھوں افراد ارد گرد کی شاہراہوں پر موجود تھے ۔ مزید استقبالی قافلوں کی گاڑیوں کو شہر میں داخل ہونے کا راستہ نہیں مل رہا تھا ۔ میڈیا کے ڈرون کیمرے بھی عوامی سمندر کی مکمل تصویر کشی کرنے سے قاصر تھے ۔ شہر کے تمام داخلی راستوں پر میلوں تک ٹریفک جام تھا ۔ کراچی ایئرپورٹ سے مزار قائد اعظم کے سامنے جناح گراونڈ کی جلسہ گاہ تک تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی ۔یہ وہ منظر تھا ، جو قوموں کے ساتھ ساتھ تاریخ کے دھارے بدل دیتا ہے ۔ جمہوریت اور عوام دشمن قوتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔ ایئرپورٹ سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے استقبالی ٹرک میں سوار ہو کر عوام کے جم غفیر کے ساتھ آہستہ آہستہ جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہی تھیں اور نم آنکھوں کے ساتھ عوام کی محبتوں کا ہاتھ ہلا کر جواب دے رہی تھیں ۔ بہت زیادہ رش کی وجہ سے ان کا قافلہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہا تھا ۔ جیسے جیسے یہ قافلہ آگے بڑھ رہا تھا ، اس سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ تاریخ کی کایا پلٹ کرنے والا پرامن عوامی انقلاب دھیرے دھیرے اپنی تکمیل کے عمل سے گزر رہا ہے ۔ قومی اور عالمی میڈیا لمحہ بہ لمحہ اس تاریخی واقعہ کی حیرت انگیز روداد بیان کر رہے تھے ۔ یہ بات کسی بھی طرح ان قوتوں کو گوارہ نہیں تھی ، جن کا استبدادی اور سامراجی ایجنڈا خطرے سے دوچار ہو چکا تھا ۔ جب شہید بی بی کا قافلہ ایئرپورٹ سے 9 منٹ مسافت پر واقع کارساز کے مقام پر 9 گھنٹے کے بعد پہنچا تو عوام اور جمہوریت دشمن قوتوں نے دہشت گردی کے ذریعہ عوامی طاقت کو کچلنے کے لئے وہ بہیمانہ اقدام کیا ، جسے تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ شہید بی بی کے ٹرک کے قریب پے در پے بم دھماکوں سے جمہوریت پسند جیالوں کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے گونجتی فضاؤں میں سناٹا چھا


گیا ۔ ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ بس کہیں کہیں کراہتے ہوئے زخمیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔عوام کی پرامن طاقت کو دہشت گردی اور وحشت سے منتشر کر دیا گیا ۔ شہید بی بی اگرچہ اس دہشت گردی کی کارروائی میں بچ گئیں لیکن ان کی اس غیر شائع شدہ کتاب کے مسودے کے اوراق بکھر گئے ، جو بعد ازاں ” مفاہمت “ کے نام سے شائع ہوئی ۔ یہ وہ کتاب ہے ، جس میں بتایا گیا کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر شہید بی بی وطن واپس کیوں آئیں ۔ انہوں نے اس کتاب میں وہ جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے آئی ہیں ، جو پاکستان کی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ بن چکے ہیں ۔ شہید بی بی نے اپنی کتاب دہشت گردی اور آمریت کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں یعنی غیر ریاستی عناصر سے وابستہ عالمی طاقتوں کے مفادات کا بھی پردہ چاک کیا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مغرب اور اسلام کے مابین پروفیسر سیموئیل ہٹنگٹن کا ” تہذیبوں کا تصادم “ کا فلسفہ تاریخی اور منطقی طور پر غلط ہے ۔ اگر مغرب دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو وہ تیسری دنیا خصوصاً مسلم دنیا میں آمروں کی بجائے جمہوری قوتوں کا ساتھ دے اور جنگوں پر اخراجات کی بجائے ان ممالک میں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لئے امداد کرے ۔ انہوںنے دہشت گردوں کے دلائل کو بھی اسلامی اسکالرز کی تحریروں سے رد کیا ۔ داخلی انتشار اور بحرانوں سے بچنے کے لئے انہوںنے نہ صرف امریکا اور مغربی ممالک کو تصادم کی پالیسی سے دور رہنے کا قابل عمل حل دیا بلکہ دہشت گردی کا شکار ممالک کی سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت کی بات کی ۔ 18اکتوبر کا دن شہید بی بی کے اس فلسفہ کو پرامن عوامی جمہوری انقلاب کے ذریعہ عملی جامہ پہنانے کا دن ہے ۔ اس طرح 18 اکتوبر کا دن جمہوریت کی بحالی ، دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کے خلاف پرامن مزاحمت اور قربانیوں کا دن ہے ۔ شہید بی بی کے بقول آمریت اور جمہوریت ایک دوسرے کو پالتی ہیں اور یہ دونوں ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں ۔ 18 اکتوبر 2007 ءہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر جمہوریت نہیں پنپ سکتی ۔18 اکتوبر کے سانحہ کی وجہ سے آج بھی ملک دہشت گردی سے نہیں نکل سکا ہے۔ 18 اکتوبر کے عظیم اور بہیمانہ واقعہ کے بعد 19 اکتوبر کو جب بلاول ہاوس کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران شہید بی بی سے کہا گیا کہ وہ واپس بیرون ملک چلی جائیں تو انہوں نے کہا کہ میں ان حالات میں پاکستان اور اس کے عوام کو نہیں چھوڑ سکتی اور بالآخر وہ 18 اکتوبر کے عوامی انقلاب کا راستہ روکنے والی قوتوں کے خلاف ڈٹی رہیں اور بالآخر 27 دسمبر 2007 ءکو عوام کے درمیان اپنی جان دے دی ۔ 18 اکتوبر کے پرامن عوامی انقلاب کی تکمیل آج بھی ہم سب لوگوں پر قرض ہے ، جو پاکستان کو پرامن ، جمہوری ، خوشحال اور مضبوط پاکستان بنانا چاہتے ہیں ۔

ملک بھر سے سے مزید