کراچی (رفیق مانگٹ ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور قطر کے درمیان انتخاب کرتے ہوئے قطر کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں غزہ امن عمل پر اسرائیل کا اثر و رسوخ کمزور پڑ گیا۔فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ امن معاہدہ ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، کیونکہ حماس کے یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کی جزوی واپسی اور غزہ میں امداد کی تقسیم کے ابتدائی مراحل مشکلات کا شکار ہیں۔ حماس اب بھی غزہ شہر پر قابض ہے اور اس کے پاس اسلحہ موجود ہے، جو اسرائیل کے لیے دشمنی دوبارہ شروع کرنے کا جواز بن سکتا ہے۔بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی اور حماس کو غیر مسلح کیے بغیر غزہ میں امداد اور بحالی کے عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں۔ مصر، انڈونیشیا، پاکستان اور آذربائیجان اس فورس میں حصہ لینے پر غور کر رہے ہیں، تاہم وقت کی کمی افراتفری کے خدشات کو بڑھا رہی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کے مبالغہ آمیز بیانات اور معاہدے کی غیر واضح تفصیلات اس کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی سب سے بڑی غلطی امریکی حمایت پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور عالمی ردعمل کو نظرانداز کرنا تھی، جس کے نتیجے میں اسرائیل سفارتی طور پر تنہا ہوتا گیا۔9 ستمبر کو دوحہ میں حماس کی قیادت پر اسرائیلی حملے کی ناکامی نے قطر کو سخت ناراض کیا۔ قطر نے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی پر ثالثی کردار چھوڑنے کی دھمکی دی، جس کے بعد ٹرمپ کو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا اور انہوں نے اسرائیل کے بجائے قطر کا ساتھ دیا۔ بالآخر نیتن یاہو دباؤ کے تحت معاہدے پر دستخط کرنے اور قطری وزیراعظم سے معافی مانگنے پر مجبور ہوئے، جبکہ ٹرمپ نے اس پیش رفت کا کریڈٹ حاصل کیا۔گزشتہ دو برسوں میں ایران کی کمزوری اور خلیجی ریاستوں خصوصاً قطر کے عروج نے خطے کے طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ اگر استحکام فورس کامیاب ہوتی ہے، حماس کو غیر مسلح کیا جاتا ہے، اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات نافذ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو ایک ابتدائی فلسطینی ریاست ابھر سکتی ہے۔