• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی ایس ایس 2024 کے نتائج، 229 میں 119 نشستوں پر خواتین کامیاب

اسلام آباد(قاسم عباسی ) ایک تاریخی پیش رفت کے طور پر، سنٹرل سپیریئر سروسز (CSS) 2024 کے امتحانی نتائج نے خواتین کی نمایاں پیشرفت ظاہر کی ہے، جہاں خواتین نے کل مختص نشستوں میں تقریباً نصف حصّہ حاصل کرتے ہوئے نمایاں برتری حاصل کی ہے۔سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کل 229 نشستوں میں سے 110 خواتین امیدواروں کو دی گئیں — جو کل کامیاب امیدواروں کا 48 فیصد بنتی ہیں — یہ شرح حالیہ تاریخ میں ریکارڈ سطح پر ہے۔ پہلی بار، سرفہرست 10 پوزیشنوں میں سے 7 خواتین نے حاصل کیں، جسے پاکستان کی سول سروس کے منظرنامے میں ایک تاریخی سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔یہ تبدیلی ان دہائیوں کی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے جو خواتین امیدواروں نے ملک کے سب سے سخت اور مسابقتی امتحان میں ساختی اور سماجی رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے کی۔ماہرینِ تعلیم، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سینئر بیوروکریٹس نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ اس کامیابی کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔ایک سینئر عہدیدار نے اس بارے میں کہا:یہ صرف ایک تعداد کی بات نہیں بلکہ پاکستان بھر کی خواتین کی برسوں کی ثابت قدمی اور محنت کا نتیجہ ہے۔ قیادت اور عوامی خدمت کے دروازے اب پہلے سے کہیں زیادہ کھل گئے ہیں۔”گزشتہ دہائی میں CSS میں خواتین کی شمولیت بتدریج بڑھ رہی تھی، لیکن اس سال کے نتائج نے ماضی کے تمام رجحانات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ 2015 سے 2024 تک، خواتین کی مختص نشستوں کی شرح 34 سے 44 فیصد کے درمیان رہی، اور شاذ و نادر ہی 40 فیصد سے اوپر گئی۔ تاہم 2024 میں 48 فیصد کی شرح نے مرد امیدواروں کے 119 کے مقابلے میں تقریباً برابری کی سطح قائم کر دی ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران CSS میں خواتین کی کامیابی کی شرح میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مسلسل بہتری دیکھی گئی۔ 2015 میں خواتین کامیاب امیدواروں کا تناسب 44.1 فیصد تھا، جو 2016 میں 43.5 فیصد، 2017 میں 40.8 فیصد، اور 2018 میں 39.6 فیصد ہو گیا۔ 2019 میں یہ شرح مزید کم ہو کر 38.2 فیصد، 2020 میں 35.7 فیصد اور 2021 میں 34.8 فیصد تک جا پہنچی۔ تاہم بعد کے برسوں میں بہتری کا رجحان دیکھا گیا — 2022 میں 38.9 فیصد، 2023 میں 40.4 فیصد، اور 2024 میں نمایاں اضافہ کے ساتھ 48 فیصد تک پہنچ گئی، جس نے سول سروس میں صنفی برابری کی سمت واضح اشارہ دیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین امیدواروں کی یہ کامیابی ان کی مستقل مزاجی، محنت، اور اُن چیلنجز کے مقابلے کا نتیجہ ہے جن میں وسائل کی کمی، سماجی توقعات، اور ادارہ جاتی تعصبات شامل ہیں۔ ان کی یہ ثابت قدمی بالآخر ایک تاریخی موڑ پر منتج ہوئی ہے۔
اہم خبریں سے مزید