• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وادیٔ غزہ میں جدوجہد کرنے والی طاقتوں کی قربانیوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ ایک طرف غزہ میں جنگ بندی مسلمانوں کی شرائط پرعمل میں آ چکی ہے اور دُوسری طرف 120 ممالک نے فلسطین کو ایک آزاد رِیاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا دوبھر ہو جائے گا اور اَمریکہ بھی اسرائیل کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ ایک اور بنیادی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اِس جنگ بندی میں جو سب سے طاقتور عنصر حاوی رہا، وہ اِسلام کا وہی تصوّر تھا جو بیسویں صدی کے اوائل میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا تھا۔ ایک یوٹیوب کلپ میں یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حماس عرب حکمرانوں کے اصرار کے باوجود جنگ بندی پر تیار نہیں ہوئی اور جونہی مذاکرات میں ترکیہ شامل ہوا اَور اُس کے عمائدین سے بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھا، تو وہ جنگ بندی پر آمادہ ہو گئی۔ سب سے بڑی وجہ یہ سامنے آئی کہ دونوں طاقتیں اسلام کی آئینی اور سیاسی قوت پر یقین رکھتی ہیں۔ اِس حیرت انگیز واقعے نےعرب کے نوجوانوں میں سوچ کا پورا لائحۂ عمل تبدیل کر دیا ہے۔ اِس عالمی تصوّر میں اسلام ایک عالمگیر حقیقت کے طور پر اُجاگر ہوتا ہے۔

’’غزہ قضیے‘‘ میں یہ پہلو بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ بعض پُرجوش مذہبی عناصر پاکیزہ تصوّرات کو جذباتی فضا پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کچھ عناصر نے ایسے ہی پاکیزہ تصورکا ایک لفظ ہیجان پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا اور پولیس کی ناکامی کے بعد فوج نے قیامِ امن کا فریضہ ادا کیا جس پر لاکھوں مسلمانوں نے سُکھ کا سانس لیا اور حکومت کے اقدام کو کھلے دل سے سراہا، مگر اب یہ شنیدہے کہ پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور معاشرے میں امن و اَمان کی اہمیت کو سمجھنے والے علمائےکرام بھی گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ ہماری بستی کی جامع مسجد کے امام صاحب نماز پڑھانے کے دوران گرفتار کر لیے گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کا ان اس جذباتی گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تین عشروں سے ہمیشہ نمازیوں کو اَمن و سلامتی کا پیغام دیتے رہے ہیں۔اس نوع کی گرفتاریوں سے حکومت کا امیج خراب ہو رہا ہے اور عوام جذباتی عناصر کے خلاف صف آرا ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ ہماری انتظامیہ کو ان علمائےکرام کا احترام کرنا چاہیے جو عوام کو امن و امان کی پاسداری کا درس دیتے اور اَپنے آپ کو شرانگیزی سے الگ تھلگ رکھتے ہیں۔ پولیس نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے عوام کو غلط ہاتھوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کی نفری کم اور اُس کی تربیت ناقص ہے۔ ہمارے وزیرِداخلہ محسن نقوی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پولیس کو تربیت یافتہ اورباوقار بنائیں،اور بلا تحقیق گرفتارکرلیے جانے والے علمائے کرام کو رہا کروائیں۔ سول اور فوجی انتظامیہ کی زیادہ تر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جذباتی عناصر امن و اَمان میں خلل نہ ڈال سکیں۔ ہمیں پوری اُمید ہے کہ غزہ کے ہولناک واقعات سے تمام متاثرہ لوگ سبق سیکھیں گے اور دِین کا احترام ہر قیمت پر قائم رکھیں گے۔ ہماری نظر میں وادیٔ غزہ میں جو معاملات طے پا گئے ہیں، اب اُن پر خلوص کے ساتھ کاربند رہنے کا مرحلہ درپیش ہو گا جس کے لیے ہماری انتظامیہ کو اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی لانا ہو گی اور عوام کو اَپنے فیصلوں میں شامل رکھنا ہو گا۔ اب طاقت سے زیادہ عقل و شعور کا بروقت استعمال سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان کا امیج بہت بہتر ہوا ہے۔ اب ہم پر لازم آتا ہے کہ ہمیں جو غیبی امداد میسّر آئی ہے، اُسے عالمی سطح پر قائم رکھیں اور اِنسانیت کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔ بدقسمتی سے ہماری یہ ایک عادت سی بن گئی ہے کہ ہر واقعے میں ہم اپنی تباہی کا پہلو ڈھونڈ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ایک صاحب میری عیادت کے لیے آئے اور ہمدردی کے چند الفاظ ادا کرنے کے بعد فرمانے لگے کہ ہم تو تباہ ہو گئے ہیں۔ بالعموم جو بھی آتا ہے، ہماری بدنصیبی کا نوحہ سناتا ہے۔ مَیں اُن کی باتیں بڑے دکھ سے سنتا رہا۔ بعد میں پوچھا آپ تو تباہی اور بربادی کی بات کر رہے ہیں، پاکستان تو بفضلِ خدا دُنیا کی ایک عالمی طاقت بن گیا ہے۔ صرف چار دِن کے اندر بھارت کی فوج کو ایک ایسی شکست سے دوچار کر دیا کہ اُس کا تمام کروفر خاک میں مل گیا۔ اِس کے علاوہ چین اور پاکستان کے سائنس دانوں اور ہوابازوں نے مغربی ٹیکنالوجی کی ہیبت کی ساری دھونس ختم کر دی ہے۔ ہمارے شاہینوں نے ایسی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ اُن پر چینی ہواباز بھی رشک کرنے لگے ہیں۔ اللّٰہ نے ہمیں نایاب معدنیات سے مالامال کر دیا ہے جن کی بدولت امریکہ بھی پاکستان سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے بےچَین ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستانی قوم کے علاوہ اِس کی فوجی قیادت کی باربار کھلے دل سے تعریف کر رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کے یہ احسانات کسی معجزے سے کم نہیں۔

یہ اچھی خبر بھی اِسی ہفتے ملی کہ ’’پیارے مولانا‘‘ کے عنوان سے میری تازہ تصنیف قلم فاؤنڈیشن نے بڑے تزک و اِحتشام سے شائع کی ہے جو اَربابِ فکرونظر کے نزدیک مفسرِ قرآن اور مفکرِ اسلام سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی انقلاب آفریں زندگی، اُن کی اسلامی دعوت اور بےمثال استقامت کی ایک لازوال داستان ہے۔

تازہ ترین