• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین گزشتہ سال سے جہاں دو طرفہ سفارتی تعلقات میں تاریخی بہتری آئی ہے وہیں دو طرفہ تجارت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ 2019ء میں پاکستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات کا حجم 900 ملین ڈالر تھا جو بعدازاں کم ہوتے ہوتے 2022 میں 500 ملین ڈالر سے بھی کم رہ گیا تھا۔ تاہم گزشتہ برس پاکستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات کا حجم دوبارہ بڑھ کر 787 ملین ڈالر ہو گیا ہے جبکہ اس عرصہ کے دوران بنگلہ دیش سے درآمدات کی مالیت تقریباً 78 ملین ڈالر رہی۔ اگرچہ یہ اعدادو شمار باہمی تجارت میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں تاہم اب بھی اس شعبے میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کی بے انتہا گنجائش موجود ہے۔ دونوں ممالک کے مابین جہاں خوراک اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں اشتراک اور تجارت بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں وہیں فرنیچر سازی کے شعبے میں بھی پاکستان کے پاس یہ استعداد اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ اس شعبے میں دو طرفہ تعاون کو بڑھانے کیلئے میں نے خود حال ہی میں پاکستان فرنیچر کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی حیثیت میں ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے بنگلہ دیش کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران ہمارے وفد نے بنگلہ دیش میں فرنیچر کے معروف مینوفیکچررز،برآمد کنندگان اور تاجر رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں جہاں بنگلہ دیش کے مختلف طبقات کی جانب سے پاکستان کیلئے جذباتی وابستگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہیں دونوں اطراف سے تجارت کے فروغ، تکنیکی مہارتوں کے تبادلے اور مشترکہ منصوبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مل کر کام کرنے کے جذبے کا بھی والہانہ اظہار کیا گیا۔

ان ملاقاتوں سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملی کہ کس طرح پاکستانی ہنرمندوں کی کاریگری، اختراعی ڈیزائنز اور مقامی خام مال کے استعمال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنگلہ دیش کے شراکت داروں کے تعاون سے جدید مینوفیکچرنگ کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے متنوع برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ وسائل اور مہارتوں کے اشتراک سے دونوں ممالک عالمی فرنیچر کی صنعت میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ اس طرح باہمی تعاون کے فروغ سے نہ صرف دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے گا بلکہ دونوں ممالک میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوںگے اور فرنیچر سازی کے شعبے میں مسابقت بڑھنے سے شہریوں کوفائدہ بھی ہو گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فرنیچر سازی کے شعبے میں اشتراک ویلیو ایڈڈ صنعتوں میں تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔بنگلہ دیش کی کاٹیج انڈسٹری نے گھریلو سجاوٹ کی اشیاء کی تیاری، دستکاریوں، لکڑی کے کام اور پروسیسنگ کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔ ان شعبوں میں بنگلہ دیش کی مہارت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان فرنیچر سازی کے شعبے میں نئی مہارتوں کو فروغ دے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش درآمد شدہ خام مال اور نیم تیار شدہ اشیا پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی برآمد کنندگان بنگلہ دیش کو فرنیچر کی برآمدات میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فرنیچر بنانے والی کمپنیاں بنگلہ دیش میں مشترکہ مینوفیکچرنگ وینچرز کے ذریعے سستی لیبر کے حصول سے اپنی پیداواری لاگت کم کرکے عالمی مسابقت میں بھی اضافہ کر سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں حکومت کو واضح، پائیدار اور طویل المیعاد پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی کمپنیاں بنگلہ دیش میں فرنیچر کی تیاری یا اسمبلی یونٹس قائم کرکے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی منڈیوں کو برآمدات میں اضافہ کر سکیں۔ علاوہ ازیں پاکستان سے بنگلہ دیش کو کچی لکڑی برآمد کرنے کی بجائے تیار یا نیم تیار شدہ فرنیچر برآمد کرکے زرمبادلہ کے حصول میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش سے ٹیکسٹائل، گھریلو سامان اور سجاوٹ کی اشیاء تیار کرنے کے شعبوں میں بھی تعاون کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش میں باہمی تجارت کو تین ارب ڈالر تک بڑھانے کے فوری مواقع موجود ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان لکڑی کی فراہمی، روایتی ہنرمندی اور ڈیزائن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر جنوبی ایشیا میں قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش سے اشتراک پاکستانی کمپنیوں کو مسابقتی محنت اور عالمی خریداروں کے نیٹ ورکس تک رسائی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس شعبے میں اشتراک ِعمل کو فروغ دینے کیلئے دونوں حکومتوں کو تجارتی ہم آہنگی بڑھانےکیلئے مشترکہ نمائشوں کے انعقاد پر توجہ دینی چاہیے تاکہ دوطرفہ تعاون کو پائیدار تجارتی تعلقات میں تبدیل کرکے باہمی ترقی کا سفر آگے بڑھایا جا سکے۔موجودہ حالات میں اگرچہ دونوں ممالک کیلئے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی وسیع گنجائش موجود ہے لیکن اس کی راہ میں کئی چیلنجز بھی حائل ہیں۔ ان میں زیادہ محصولات، پیچیدہ کسٹمز کے طریقہ کار اور نان ٹیرف رکاوٹیں شامل ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست بینکاری چینلز، مالیاتی معاہدوں اور ڈیجیٹل ادائیگی کے حل کی عدم موجودگی بھی لین دین کو مشکل بناتی ہے جس سے تجارت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں براہ راست شپنگ کے محدود راستے اور پیچیدہ نقل و حمل کے قواعد و ضوابط مال برداری کے اخراجات اور وقت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس لیے طویل المدت تجارتی تعلقات استوار کرنے کیلئے انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے اقدامات ضروری ہیں۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک کے مابین ترجیحی تجارتی معاہدے یا آزاد تجارتی معاہدے کے تحت ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

تازہ ترین