• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ ایک ریشم کی ڈور کی مانند رہے ہیں، کبھی مضبوطی سے بندھے، کبھی تناؤ سے بکھرنے کے قریب۔ خطے کی سیاست میں یہ دو ہمسایہ ممالک امن و تصادم کے درمیانی دہانے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ترکیہ نے ہمیشہ ایک ایسے بردبار دوست اور مخلص ثالث کا کردار نبھایا ہے جسکی نیت میں خیر اور عمل میں توازن پوشیدہ ہے۔ کرزئی اور مشرف کے ابتدائی مذاکرات سے لیکر اشرف غنی کے دور اور موجودہ طالبان حکومت تک، ترکیہ نے بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ صرف الفاظ کا نہیں بلکہ عمل کا سفیر ہے۔ 25 اکتوبر 2025ء کو استنبول میں ہونیوالے تکنیکی مذاکرات اس طویل سفارتی سفر کا تازہ باب ہیں۔

2007 ء میں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں اور الزامات شدت اختیار کر گئے، ترکیہ نے خاموشی توڑتے ہوئے صدر پرویز مشرف اور صدر حامد کرزئی کو انقرہ میں ایک تاریخی اجلاس کیلئے مدعو کیا۔ 30 اپریل 2007ء کو ہونیوالی یہ ملاقات ’’انقرہ عمل‘‘ (Ankara Process) کہلائی، جسکا مقصد باہمی اعتماد سازی اور دہشت گردی کیخلاف مشترکہ حکمتِ عملی تھا۔ اس تاریخی ملاقات کے بعد ’’انقرہ اعلامیہ‘‘ جاری ہوا، جو ترکیہ کے سفارتی توازن اور ثالثی کی بصیرت کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

ترکیہ نے اس عمل کو وقتی نہیں بلکہ مستقل بنانے کا فیصلہ کیا ۔ 2008ء میں استنبول میں ایک اور سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا جس میں ترکیہ کے صدر عبداللہ گل، صدرآصف زرداری اور صدر حامد کرزئی شریک ہوئے۔ اجلاس میں سرحدی نگرانی، تجارتی تعاون اور مشترکہ انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں پر اتفاق کیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ترکیہ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو محض سیکورٹی کے دائرے سے نکال کر معاشی و علاقائی تعاون کی سمت موڑنے کی بنیاد رکھی۔ ترکیہ نے اپنی ثالثی کو مزید وسعت دیتے ہوئے 2011ء میں ’’قلبِ ایشیا –استنبول عمل‘‘ (Heart of Asia Istanbul Process ) کا آغاز کیا۔ ایک ایسا فورم جس نے علاقائی سفارتکاری کو نئی جہت دی۔ 2015ء میں اسلام آباد میں ہونیوالے اجلاس میں ترکیہ نے دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے اور تجارتی راہداریوں کے فروغ پر متفق کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔ یہ ترکیہ کی اس وسیع بصیرت کا مظہر تھا جسکے مطابق افغانستان کو تنازع نہیں بلکہ رابطے کا مرکز اور پاکستان کو امن کا ضامن سمجھا گیا۔

جب افغانستان میں اشرف غنی برسراقتدار آئے تو ترکیہ نے اپنی ثالثی حکمتِ عملی کو مزید وسعت دی۔ 2014ء سے 2019ء کے دوران متعدد سہ فریقی اجلاس انقرہ اور استنبول میں منعقد ہوئے جن میں فوجی اور انٹیلی جنس سربراہان نے بھی شرکت کی۔2019 ء میں استنبول میں ہونے والی آٹھویں ’’قلبِ ایشیا‘‘ کانفرنس میں ترکیہ نے واضح طور پر کہا کہ افغانستان کا مستقبل اسکے ہمسایہ ممالک کے مشترکہ امن اور ترقی سے جڑا ہے۔ایک ایسا اصول جو ترکیہ کی متوازن خارجہ پالیسی کی بنیاد بن چکا ہے۔ اگست 2021ءمیں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جب دنیا نے کابل سے فاصلہ اختیار کیا، ترکیہ نے اپنے سفارت خانے کے دروازے بند نہیں کئے۔ وہ چند مسلم ممالک میں سے ایک تھا جس نے طالبان حکومت سے براہِ راست رابطے برقرار رکھے اورپاکستان و افغانستان کے درمیان بڑھتی سرحدی کشیدگی کو متوازن کیا۔

ترکیہ نے دوحہ مذاکرات میں فائر بندی کرانے اور دونوں ممالک کے عسکری و سفارتی رابطے بحال کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا یہ ’’دوحہ رابطہ‘‘ دراصل مستقبل کے اس استنبول تکنیکی مذاکرات کا پیش خیمہ ثابت ہوا جو 25 اکتوبر 2025 ء سےتادم تحریر جاری ہیں۔ ترکیہ کی ثالثانہ پالیسی وقتی یا وقتی سفارتی سرگرمی نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی وژن کا حصہ ہے۔اس کا مقصد نہ صرف پاکستان اور افغانستان کو قریب لانا ہے بلکہ پورے خطے کو استحکام، رابطہ اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ ’’انقرہ اعلامیہ‘‘ سے لے کر ’’قلبِ ایشیا‘‘ اور اب ’’استنبول تکنیکی مذاکرات‘‘ تک ترکیہ کا کردار اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وہ مسلم دنیا میں امن اور شراکت داری کیلئے ایک متوازن، باوقار اور باعمل کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو سرحدی تنازعات، مہاجرین کے مسائل اور سیکورٹی خدشات موجود ہیں، ان کے حل کیلئے ترکیہ کی ثالثی نئی امید کا پیغام ہے۔

استنبول مذاکرات میں پاکستان نے طالبان حکومت کے سامنے اپنے اصولی مطالبات دو ٹوک انداز میں رکھے ہیں: دہشت گردوں کی سرپرستی کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ پاکستان نے واضح کیا کہ بات چیت تبھی آگے بڑھے گی جب طالبان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اور قابلِ یقین اقدامات کریں گے۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوئیں تو اسلام آباد اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدام کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اس نازک مرحلے پر ترکیہ کی خفیہ سروس ایم آئی ٹی کے سربراہ ابراہیم قالن، جو صدر رجب طیب ایردوان کے قریبی ساتھی ہیں، ایک منجھے ہوئے ثالث کے طور پر سرگرم ہیں۔ دوحہ مذاکرات میں فریقین کو قریب لانے اور استنبول مذاکرات کے تسلسل کو یقینی بنانے میں انکا کردار کلیدی رہا۔ پاکستان سے ان کی دلی وابستگی اور طالبان قیادت سے گہری واقفیت نے انہیں اس پیچیدہ سفارتی عمل کا اہم ترین ثالث بنا دیا ہے۔ ترکیہ کی یہ مسلسل کاوشیں پیغام دیتی ہیں کہ وہ محض ثالث نہیں بلکہ امن و مصالحت کا معمار ہے۔ اس نے نہ صرف دو متحارب ہمسایوں کو ایک میز پر بٹھایا بلکہ مسلم دنیا کیلئے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ جب نیت میں اخلاص اور عمل میں توازن ہو تو سفارت بھی عبادت بن جاتی ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان اس موقع کو دانشمندی سے استعمال کریں تو خطہ دہشت گردی کے سایوں سے نکل کر وسطی و جنوبی ایشیا کے ایک روشن اقتصادی محور میں تبدیل ہو سکتا ہےاور اس تبدیلی کی بنیاد استنبول کے ان مذاکرات میں رکھی جا رہی ہے، جن پر، امن کیلئے ،پوری امت کی نظریں مرکوز ہیں۔

تازہ ترین