• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی ای چالان نظام، بنیادی انفرا اسٹرکچر تباہ، سہولتیں ناپید، بھاری جرمانے، شہری پریشان

کراچی( ثاقب صغیر )کراچی میں ٹریفک پولیس کی جانب سے ای چالان نظام کے باضابطہ افتتاح اور پہلے ہی روز شہریوں کو سوا کروڑ روپے سے زائد مالیت کے چالان کیے جانے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔سوشل میڈیا اور سماجی حلقوں میں اس نظام کی حمایت اور مخالفت میں مختلف دلائل دئیے جا رہے ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کے بیشتر مقامات پر روڈ انجینئرنگ کے نقائص ہیں جو ٹریفک حادثات سمیت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا سبب بھی بن رہے ہیں مختلف یوٹرن اور شارپ کروو (موڑ)، انڈر پاسز پر کھڈے،پلوں کے جوائنٹس بھی حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں بنیادی انفراسٹرکچر کا فقدان ہے ۔کھڈوں اور گڑھوں کے باعث شہر کی سڑکوں کا حال خراب ہے۔نکاسی آب کا نظام تباہ ہے۔انکروچمنٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔سگنلز، ٹریفک مینجمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کا بھی ہونا ضروری ہے۔ایسے میں جدید کیمروں اور خودکار چالان کا نظام لانے سے پہلے شہر کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ بغیر لین مارکنگ اور بغیر اسپیڈ کیمرہ مارک کے چالان کیسے کیے جا رہے ہیں؟سڑکوں پر اسپیڈ لمٹ کے سائن سمیت مختلف ٹریفک سائن کے بورڈز موجود نہیں ہیں جو شہریوں کو آگاہی دے سکیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو نئی نمبر پلیٹس کی فیس بھرنے کے باوجود ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مہینوں سے نمبر پلیٹس جاری نہیں کی گئی ہیں۔ جرمانوں کے حجم کے حوالے سے بھی شہریوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ جرمانے “بین الاقوامی سطح” کے لگائے گئے ہیں جبکہ مقامی حالات اس کے عین مطابق نہیں ہیں۔گذشتہ دنوں اسکیمرز کی جانب سے جعلی ایس ایم ایس اور چیٹ میسجز کے ذریعے جعلی چالان بھی شہریوں کو بھیجے گئے جس پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ چالان پر اعتراض کرنے کے حوالے سے میکانزم موجود ہے تاہم اس کے استعمال اور عملی عمل میں ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ کچھ شہریوں کی جانب سے کہا گیا کہ ٹریفک پولیس کی جانب سے بروقت آن لائن نظام پر چالان کی ادائیگی یا استغاثہ کا عمل ٹھیک سے واضح نہیں ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی تھانے میں کوئی شہری ایف آئی آر کروانے یا کوئی شکایت درج کروانے کے لیے جاتا ہے تو نہ جانے اسے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں تو ٹریفک پولیس کے دفاتر، آن لائن سہولتیں اور اپیل کے طریقہ کار میں بھی انھیں اسی قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بظاہر یہ نظام صرف آمدنی بڑھانے کا ذریعہ معلوم ہوتا ہے بجائے اس کے کہ ٹریفک نظم و ضبط اور شہری حفاظت بہتر ہو۔شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست پہلے یقینی بناتی ہے کہ شہریوں کو انفرااسٹرکچر سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں، اس کے بعد اگر کوئی شہری قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کو قانونی کے مطابق سزا دی جائے تاہم کراچی میں جہاں بنیادی انفراسٹرکچر ہی تباہ ہو چکا ہے وہاں اتنے بھاری جرمانے لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔شہریوں نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ دو روز میں ان کیمروں کے ذریعے کتنے ملزمان پکڑے گئے ہیں؟روزانہ کی بنیاد پر شہر سے چوری اور چھینی گئی کتنی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ان کیمروں کے ذریعے برآمد کی گئی ہیں ؟۔فلاحی تنظیم چھیپا کے مطابق رواں برس ٹریفک حادثات میں اب تک 710 افراد جاں بحق جبکہ 10 ہزار 529زخمی ہو چکے ہیں۔جاں بحق ہونے والوں میں 550مرد ،72 خواتین اور 88 بچے شامل ہیں۔چھیپا کے مطابق اس دوران ہیوی گاڑیوں کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 209 ہے۔ڈمپر کی ٹکر سے 37افراد جاں بحق ہوئے۔ ٹریلر کی ٹکر سے 80،واٹر ٹینکر کی ٹکر سے 47 ،مزدا کی ٹکر سے 18 جبکہ بس کی ٹکر سے 27 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ہیوی ٹریفک کی زد میں آ کر 200 سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔پہلے ہیوی ٹریفک کو رات 11 بجے سے قبل شہر میں آنے کی اجازت نہیں تھی تاہم اتنے حادثات ہونے کے باوجود ہیوی ٹریفک کو رات 10 بجے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔دوسری جانب کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے ای چالان (E-Challan) نظام کے تحت دو روز میں مجموعی طور پر 6ہزار 963الیکٹرانک چالان جاری کیے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ای چالان سسٹم مکمل طور پر فعال کردیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق یہ نظام شہریوں میں ٹریفک قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے اور مؤثر نگرانی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے اور عوامی تعاون سے یہ نظام مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔یہ نظام انسانی صوابدید، ٹکراؤ اور ممکنہ جانبداری کا خاتمہ کر کے انصاف اور جوابدہی کو یقینی بناتا ہے۔اس نظام کے حوالے سے شہریوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات سمیت مختلف سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ ترجمان ٹریفک پولیس کراچی اور ٹریفک پولیس کے متعلقہ حکام کو بھیجا گیا تاہم ٹریفک پولیس کی جانب سے بدھ کی شب تک اس سوالنامے کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اہم خبریں سے مزید