• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی توانائی پر موڑ: آف شور میں کامیابی، آنشور میں جدوجہد

اسلام آباد (تجزیہ؛خالد مصطفیٰ) پاکستان نے تقریباً دو دہائیوں کے بعد سمندری تیل اور گیس کی تلاش کو دوبارہ شروع کرتے ہوئے توانائی میں خود مختاری کی جانب ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ جمعہ کو، وزارت توانائی نے آف شور بِڈ راؤنڈ 2025 کے نتائج کا اعلان کیا، جس میں 40میں سے 23 بلاکس سرمایہ کاروں کو تفویض کیے گئے۔ تاہم، 17 بلاکس کسی بھی بولی کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، جو ملک کے توانائی کے شعبے میں مواقع اور چیلنجز دونوں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ جدوجہد نئی نہیں ہے۔ ستمبر 2025 میں، جب 23 آن شور بلاکس پیش کیے گئے تھے، تو صرف ایک بولی موصول ہوئی تھی، جس سے 22 بلاکس کو کوئی دعویدار نہیں ملا ۔ پٹرولیم ڈویژن کے اندرونی ذرائع نے اس کی وجہ محدود تشہیری رسائی اور بین الاقوامی شراکت کی کمی کو قرار دیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور میری انرجیز جیسی کمپنیوں نے حقیقی دلچسپی کے بجائے ذمہ داری کے تحت زیادہ حصہ لیا۔ صنعت کے ایک سینئر عہدیدار نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے پیٹرولیم ڈویژن کی بولیوں کی تاریخ میں اتنا خفیہ آپریشن کبھی نہیں ہوا۔ کوئی روڈ شوز نہیں ہوئے، سرمایہ کاروں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ یہ ناکامی کا نسخہ تھا۔ عالمی تیل کی قیمتیں 85 ڈالر سے کم ہو کر 65 ڈالر فی بیرل تک گرنے کے باوجود بھی، پاکستان نے پھر بھی تقریباً 1 ارب ڈالر مالیت کی بولیاں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، جس میں ترکیہ کی قومی تیل کمپنی کی شرکت بھی شامل ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری (پالیسی) ظفر عباس نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی منڈی میں عدم استحکام کے پیش نظر یہ رسپانس کافی تھا اور یہ پاکستان کے سمندری توانائی کے امکانات پر جاری بین الاقوامی اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اس آف شور راؤنڈ میں انڈس اور مکران بیسن کے علاقوں میں پھیلے ہوئے 53,510 مربع کلومیٹر کا احاطہ کیا گیا۔ کامیاب بولی دہندگان میں پاکستان کی قومی توانائی کمپنیاں جیسے کہ او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، میری انرجیز اور پرائم انرجی—کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کھلاڑی جیسے کہ TPAO، یونائیٹڈ انرجی، اورینٹ پٹرولیم، اور فاطمہ پٹرولیم شامل تھیں۔ "پہلے مرحلے (Phase-I) کے دوران، جو تین سال پر محیط ہے، یہ کمپنیاں ارضیاتی اور جیو فزیکل مطالعات کے لئے 4427ورک یونٹس کا کام کریں گی، جس میں اعلیٰ درجے کے سیسمک ڈیٹا کا حصول اور اس کی تشریح شامل ہے۔ "ابتدائی نتائج پر منحصر، کل سرمایہ کاری 750 ملین ڈالر سے 1 ارب ڈالر تک بڑھ سکتی ہے۔ حکام نے تازہ دلچسپی کا سہرا ادارہ جاتی اصلاحات کے سر باندھا ہے، جن میں ایک نیا ماڈل پروڈکشن شیئرنگ معاہدہ اور آف شور پٹرولیم رولز شامل ہیں، جو ایک شفاف اور سرمایہ کار دوست ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ "امریکہ میں قائم ڈی گولیر اینڈ میک ناٹن کی ایک حالیہ تحقیق نے پاکستان کے سمندری بیسن میں قابل ذکر ’’ابھی تک نہ دریافت شدہ‘‘ ہائیڈرو کاربن کے امکانات کی تصدیق کی ہے۔ "وزارت توانائی کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا، ʼاس تحقیق نے اس بات کی تصدیق کر دی جس پر ہمارے ارضیاتی ماہرین طویل عرصے سے یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کے سمندری علاقوں میں بہت بڑی غیر استعمال شدہ صلاحیت موجود ہے۔ "اس بولی کے راؤنڈ کے سب سے زیادہ علامتی نتائج میں سے ایک TPAO (ترکیہ کی قومی تیل کمپنی) کا آف شور بلاک سی میں 25 فیصد حصہ حاصل کرنا ہے، جو بین الاقوامی تعاون میں ایک سنگ میل اور ایک دیرینہ اسٹریٹجک پارٹنر کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔ پہلے مرحلے کے دوران، ایکسپلوریشن کمپنیاں ارضیاتی ساختوں کی نقشہ سازی اور ذخائر کی صلاحیت کا جائزہ لینے پر توجہ مرکوز کریں گی، جبکہ دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ امید افزا علاقوں میں تلاشی کے لیے کھدائی شامل ہو گی۔ "حکومت فعال طور پر عالمی تیل کی بڑی کمپنیوں کو آئندہ راؤنڈز میں شرکت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی توانائی کی سرحد قابلِ اعتماد بین الاقوامی کھلاڑیوں کے لیے کھلی ہے۔ "اگرچہ آف شور راؤنڈ (سمندری بولی کا مرحلہ) نئے امکانات اور بین الاقوامی اعتماد کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن آن شور لائسنسنگ راؤنڈ (خشکی پر بولی کا مرحلہ) ایک واضح تضاد پیش کرتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید