• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ٹیکس نظام کو جہاں ایک طرف ٹیکس گزاروں کی محدود تعداد کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہیں اب اس حوالے سے یہ تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ذمہ دار ادارے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل ٹیکس گزاروں پر ٹیکس کی شرح مسلسل بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف نئے لوگ ٹیکس نظام کا حصہ بننے سے خوفزدہ ہیں بلکہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود ٹیکس گزار بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے کے باعث مالی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ حقائق پاکستان کے ٹیکسیشن فریم ورک کی بنیادی خامیوں کو اجاگر کرنے کیساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایف بی آر کی استعداد اور عزم میں کمی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ اس حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے طویل عرصے سے پاکستان پر اصلاحات کرنے کیلئے زور دے رہے ہیں تاکہ انتظامی چیلنجز سے نمٹنے کیساتھ ساتھ ٹیکس حکام کی صلاحیت میں اضافہ کرکے ٹیکنالوجی کی مدد سے مالیاتی لین دین کی نگرانی کرتےہوئے ٹیکس کے منصفانہ نفاذ اور وصولی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس وقت بھی پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی شعبوںپر مشتمل ہے جنہیں دستاویزی نظام کا حصہ نہیں بنایا جا سکا ۔

اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی بنیادی ناکامی یہ ہے کہ اس نے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی بجائے بالواسطہ ٹیکس اکٹھا کرنے اور بنیادی آمدنی کے ذرائع پر ودہولڈنگ ٹیکس لگا کر کارپوریٹ اداروں سے محصولات کی وصولی کو ترجیح دی ہے۔ اس پالیسی کے باعث نہ صرف کارپوریٹ ادارے مالی دباؤ کا شکار ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور صلاحیت کے حامل تنخواہ دار طبقے میں بھی بددلی پائی جاتی ہے۔

محصولات کی وصولی کے نظام کی یہ ناانصافی لوگوں کو اپنی آمدن کے ذرائع چھپانے کی ترغیب دیتی ہے اوراس سے نظام پر عوام کے اعتماد کو بھی ختم کرتی ہے۔ ایف بی آر کی طرف سے مالی سال 24-2023ء میں جمع کئے گئے محصولات کے اعدادوشمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ محصولات کے نفاذ اور وصولی کے موجودہ طریقہ کار پر اعتراضات بیجا نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر نے مجموعی طور پر 9.2کھرب روپے سے زائد کے محصولات وصول کئے تھے۔ ان میں سے 29فیصد یعنی 2.7کھرب روپے ود ہولڈنگز ٹیکس کی مد میں اکٹھے کئے گئے تھے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے گھریلو صارفین پر عائد سیلز ٹیکس سے حاصل کی گئی رقم کا تناسب 38.3 فیصد تھا۔ اسی طرح تنخواہ دار طبقے سے 391ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا جو کہ اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 41.8 فیصد زیادہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کو 35 فیصد تک ٹیکس کی شرح کا سامنا ہے جس میں 9 فیصد اضافی سرچارج بھی شامل ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کریڈٹ اور چھوٹ کو کم یا ختم کر دیا ہے۔ جس سے غیر متناسب ٹیکس کےبوجھ کے بارے میں پیشہ ور افراد اور سول سوسائٹی کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ صورتحال پہلے سے مشکل معاشی ماحول میں تنخواہ دار طبقے کیلئے مزید مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ نظام حکومت کے غیر ضروری اخراجات ختم کرنے کی بجائے اس کو محصولات کی وصولیوں کے اہداف میں بے دریغ اضافے سے پوری کرنے کی پالیسی کے باعث افراط زر بڑھنے اور کرنسی کی قدر میں کمی سےشہریوں کی قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے اور پہلے سے کم آمدنی میں گزارا کرنے والا طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے جا چکا ہے۔ اس سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہوئی ہے ،نئی سرمایہ کاری بھی تقریباً رک چکی ہے اور ہنر مند افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ اس طرح ٹیکس کا غیر منصفانہ نظام نہ صرف ملک کی ترقی میں حائل ہے بلکہ اس کی وجہ سے ’’برین ڈرین‘‘بھی بڑھ رہا ہے۔

اگرچہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 1635ارب روپے اکٹھے کئے ہیں جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ ہیں۔ تاہم حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل کاروباری اداروں اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافہ کسی بھی طرح قابل تعریف اقدام نہیں ۔ حکومتی دعووں کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران براہ راست ٹیکس وصولی میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصےکے دوران تنخواہ دار طبقے سے 138 ارب روپے وصول کئے گئےجو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 28 ارب روپے زیادہ ہیں۔ علاوہ ازیں ایف بی آر کی سالانہ کارکردگی رپورٹ 2024ءسے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیلز ٹیکس فائلر اور فعال ٹیکس دہندگان کی تعداد میں نمایاں تفاوت موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سیلز ٹیکس فائلر کی مجموعی تعداد دو لاکھ 34 ہزار 193 ہے جبکہ فعال ٹیکس دہندگان کی تعداد 47 لاکھ 38 ہزار 595 ہے۔ یہ تفاوت سیلز ٹیکس رجسٹریشن کی محدود رسائی اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان حالات میں غیر رسمی شعبوں کو دستاویزی معیشت کا حصہ بنا کر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں افراط زر کے مطابق ٹیکس سلیب کو ایڈجسٹ کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ آمدنی والے افراد اور بڑے اداروں پر عائد ٹیکس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کیے بغیر مالی بوجھ کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے کر پورے ٹیکس نظام کو مزید شفاف اور آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین