• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1940ء کی بات ہے جب حکیم الاُمت محمد اقبال کے دیے ہوئے مشورے پر قائدِاعظم محمدعلی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا انعقاد منٹوپارک لاہور میں 22تا 24مارچ کیا۔ اُس اجلاس میں پورے ہندوستان سے اسّی نوے ہزار مندوبین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ وہ انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنا ایک جداگانہ وطن حاصل کرنا چاہتے تھے۔ خواتین بھی غیرمعمولی جذبے سےسرشار نظر آتی تھیں۔ آج اِسی جگہ ایک نئی تاریخ طلوع ہونے والی ہے۔ پوری قوم اِس وقت اِس نظام سے سخت بیزار دِکھائی دیتی ہے جس میں امیر غریبوں کا خون چوس رہے ہیں اور بااثر لوگوں اور خاندانوں نے پورے ملکی وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔ وہ خود تو ایکڑوں پر پھیلے محلات میں رہتے ہیں جبکہ آبادی کا بڑا حصّہ چندگز کی جھونپڑیوں یا تنگ مکانوں میں رہنے پر مجبور ہے اور اُسے زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی میسّر نہیں۔ عام طور پر ہماری انتظامیہ غریبوں کو ریلیف پہنچانے کے بجائے اُن پر ہر ظلم روا رَکھتی ہے۔ تھانوں، کچہریوں، جیلوں میں زیادہ تر وہی بےسہارا لوگ درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہماری آبادی کا قابلِ ذکر حصّہ غربت کی لکیر کے نیچے ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ سب سے زیادہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ وہ مقاصد جن کیلئے برِصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد وَطن کی تمنا کی تھی اور اُسے قائدِاعظم کی بصیرت افروز قیادت میں حاصل بھی کر لیا تھا، آج اِسی کو حریص حکمرانوں اور خودغرض طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسلام کے ساتھ عوام جس وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، آج اُنہی اعلیٰ اقدار کو ضعف پہنچ رہا ہے۔ کسی قدر اِطمینان کی بات یہ ہے کہ غریب اور نادار لوگ اِن مشکلات سے گھبرانے کے بجائے اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہیں اور اَپنے وطن کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ایسے میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر جناب حافظ نعیم الرحمٰن ’’بدل دو نظام‘‘ کی تحریک چلانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ وہ اِس مقصد کیلئے شہرشہر جا رہے اور عوام کو اِس میں بھرپور شرکت کی دعوت دے رہے ہیں، کیونکہ نظام کی تبدیلی سے سب سے زیادہ فائدہ قوم کو پہنچے گا۔ گیارہ بارہ سال بعد جماعت کا سالانہ اجتماع مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں منعقد کیا جا رہا ہے جہاں 23مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور منظور ہوئی تھی۔ اِس اجتماع میں کوئی 80ہزار کے لگ بھگ ارکان قیام کرینگے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوں گے۔ یہاں کچھ ہی فاصلے پر خواتین کیلئے خیمے نصب کیے گئے ہیں کہ وہ بڑی تعداد میں شرکت کیلئے آ رہی ہیں اور ’’بدل دو نظام‘‘ کی تحریک میں ایک فعال کردار اَدا کرنےکیلئے بےتاب ہیں۔ اِس اجتماع میں نظام کی تبدیلی کی تحریک مرکزی حیثیت اختیار کر جائیگی جو قوم کی ایک متفقہ آواز ہو گی، کیونکہ وہ اِس فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ حکومتِ پنجاب جماعت کیساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اُس نے بادشاہی مسجد کو اَعلیٰ مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ اِس سے اجتماع کی شان و شوکت اور باہمی تعلقات میں خوشگوار اِضافہ ہو گا۔ نیکی کے کاموں میں تعاون اور اِشتراک کا جذبہ بہت اچھے نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ بڑےبڑے اجتماعات کا سب سے بڑا یہی فائدہ ہے کہ اِن سے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور خیر کے سوئے ہوئے جذبات جاگ اُٹھتے ہیں۔ اِن سے قومی وحدت اور ملّی حمیت کو غیرمعمولی تقویت ملتی ہے اور تاریخ کا پہیہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ ایک زمانے میں نظریاتی جماعتیں قومی سطح پر اجتماعات کرتیں جسکے نتیجے میں قومی جذبوں میں تازگی اور گرمجوشی پیدا ہوتی۔ مجھے عوامی نیشنل پارٹی کے اجتماعات یاد ہیں جن میں پورے پاکستان سے مندوبین شریک ہوتے اور قومی شعور مضبوط کرنے کا باعث بنتے تھے۔ ایک زمانے میں پیپلزپارٹی نے بھی بڑےبڑے جلسوں کا کلچر پیدا کیا، مگر وہ جمہوری روح پر کچھ زیادہ توجہ نہ دے سکی۔ ایک اندازے کے مطابق جماعتِ اسلامی پورے جنوبی ایشیا میں سب سے منظم جماعت ہے اور اِس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اِسے دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ایک اچھی صورتِ حال ہے جس کا مسلم اُمہ کو پوراپورا فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ امیر جماعتِ اسلامی نے حالات کی نبض پر درست ہاتھ رکھا ہے، مگر یہ کام ایک بہت بڑے چیلنج سے کسی طور کم نہیں۔ پرانا نظام جسے برطانیہ، امریکہ اور دُوسرے مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے، اِس کی جڑیں زندگی کے ہر شعبے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دنیا میں جو معاشی نظام چل رہا ہے، اِسی سے یہ فرسودہ نظام قائم ہے۔ انگریزوں کے زمانے کی عدالتیں آج بھی سایہ فگن ہیں۔ اِسی طرح پولیس، انتظامیہ اور سارے کا سارا تعلیمی ڈھانچہ اُسی عہد کا ہے۔ البتہ اُن میں بعض اصلاحات بھی ہوئی ہیں اور قومی دانشوروں کی کوششوں سے نئے نئے خیالات کو بھی جگہ ملی ہے، مگر پورے نظام کو بدل دینے کیلئے جماعتِ اسلامی کو پہلے اپنا حلقۂ اثر وَسیع کرنا ہو گا۔عزیزم خواجہ سعد رفیق نے کتاب ’’پیارے مولانا‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں نہایت مناسب مشورہ دِیا ہے کہ وہ تمام افراد جو تحریکِ اسلامی سے متاثر ہیں، وہ دَراصل جماعتِ اسلامی کا بیش قیمت سرمایہ ہیں خواہ وُہ جماعت کے نظم کے اندر شامل نہ بھی ہوں۔ وہ اُنہیں اپنا سمجھے اور اُن سے نظام کی تبدیلی کی تحریک گھر گھر پہنچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اِسی طرح کالجوں، یونیورسٹیوں اور تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں بڑے پیمانے پر سیمینار منعقد کیے جائیں جن میں یہ بات آسان زبان میں بتائی جائے کہ نیا نظام بنیادی طور پر عام شہری کو کیا کیا فوائد بہم پہنچائے گا اور اُسے کس طرح نافذ کیا جا سکے گا۔ لٹریچر کا ایک سیلاب اُمڈ آنا چاہیے جس میں تمام ضروری تفصیلات بھی فراہم کی جائیں، کیونکہ ہم نظام بدل دینے کی باتیں برسوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں، مگر کوئی نمایاں تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ اِس لیے اب ایک قابلِ عمل پروگرام کیساتھ ایک لائحہ عمل اور ٹائم ٹیبل بھی دینا ہو گا۔ سب سے پہلے تعلیم یافتہ طبقے کو پوری قوت سے متحرک کرنا ہو گا اور بیوروکریسی کے صحتمند عناصر میں ایک نئی روح پھونکنا ہو گی۔

تازہ ترین