اسلام آباد( مہتاب حیدر،تنویرہاشمی،رانا غلام قادر) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک (GCD) اسیسمنٹ رپورٹ میں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں اوپر سے لے کر نیچے تک پھیلی ہوئی وسیع، منظم اور بدترین کرپشن کو بےنقاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس ناسور کو روکنے کے لیے 92 ٹھوس اصلاحات پر فوری عمل کیا جائے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں کمزور طرزِ حکمرانی، قانون کی شکست و ریخت اور کرپشن نے ملک کی معاشی صلاحیت کو اس حد تک مفلوج کر دیا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر 5سے 6.5 فیصد جی ڈی پی کی ترقی رک رہی ہے۔رپورٹ کا اجراء سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کی سہولت (EFF) کے تحت 1.2 ارب ڈالر کی تیسری قسط جاری کرنے کی پیشگی شرط کا حصہ ہے۔آئی ایم ایف نے 15 ترجیحی شعبوں کا تذکرہ کرتےہوئے زور دیا ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسروں کا محاسبہ اور احتساب مضبوط کیا جائے، اثاثہ جات کی تفصیلات 2026 سے ہر صورت عوام کے سامنے رکھی جائیں، اثاثوں کی رسک پر مبنی تصدیق کا نظام بنایا جائے اور CCP، SECP اور NAB کے سربراہان کی تقرری کے لیے ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جو میرٹ، شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنائے۔ ایس آئی ایف سی کے تمام فیصلے مراعات، ٹیکس چھوٹ اورمنظوریوں کی منطق عوام کے سامنے رکھی جائے، سرکاری اداروں کو دیے گئے ٹھیکوں میں مراعات ختم کی جائیںتمام ریگولیٹری عمل ڈیجیٹل بنایا جائے۔تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی ’’گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک‘‘ (GCD) اسیسمنٹ رپورٹ میں ہر سطح پر وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کا انکشاف کرتے ہوئے تقریباً سو بڑی سفارشات پر عمل درآمد کا تقاضا کیا ہے، تاکہ اس بدعنوانی کو روکا جا سکے۔آئی ایم ایف نے کمزور طرزِ حکمرانی، قانون کی حکمرانی کی کمزوریاں، اور بدعنوانی میں کمی نہ ہونے کے باعث پاکستان کی شرحِ نمو کی صلاحیت کو جو سالانہ بنیادوں پر 5 سے 6.5 فیصد جی ڈی پی تک متاثر کرتی ہے، اس ضمن میں 15 بڑے ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی ہے۔GCD رپورٹ کا اجرا 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (EFF) پروگرام کے تحت تیسری قسط—جو 1.2 ارب ڈالر ہے—کے اجرا سے پہلے ایک پریئر ایکشن کے طور پر کیا گیا۔ قرضوں کے انتظام میں متعدد ادارے ایک ہی کام کر رہے ہیں، جس سے فیصلے سست اور بے ربط ہو جاتے ہیں۔ریاستی اداروں کی مشکوک مراعات اور من پسند کمپنیوں کو نوازنے کا نظام سرکاری خریداری کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ٹیکس نظام میں واضح پالیسی نہ ہونا اور ٹیکس اہلکاروں کو بےحد اختیارات دینا بدعنوانی کو جنم دے رہا ہے۔اکانومک کوآرڈینیشن کمیٹی (ECC)، SECP اور SIFC جیسے ادارے ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہیں، جس سے شفافیت اور پارلیمانی نگرانی کمزور ہو جاتی ہے۔SIFC کے وسیع اختیارات کے باعث اس کے لیے سخت پروٹوکول، ضابطے اور مکمل شفافیت ناگزیر ہے۔مجموعی 92 بڑی سفارشات میں آئی ایم ایف کی رپورٹ نے زور دیا ہے کہ اعلیٰ وفاقی سول سرونٹس میں احتساب اور دیانت کو مضبوط بنانے کے لیے اثاثہ جات کے گوشواروں کی اشاعت 2026 میں شروع کی جائے، ان گوشواروں کی رسک پر مبنی تصدیق متعارف کرائی جائے، اور اہم نگران اداروں (سی سی پی، ایس ای سی پی، نیب) کے سربراہان کی تقرری کے لیے قانونی فریم ورک کا جائزہ لے کر اسے بہتر بنایا جائے، تاکہ میرٹ پر مبنی، شفاف اور معتبر تقرری کا عمل یقینی ہو۔ قانون کی حکمرانی (Rule of Law) سے متعلق آئی ایم ایف کی 12 بڑی سفارشات میں جو اقدامات تجویز کیے، جن میں شامل ہیں:ایسے پروگرام کا قیام جو خاص طور پر تجارتی تنازعات سمیت مقدمات کے بیک لاگ میں کمی لائے، اور اس منصوبے پر عمل درآمد کی پیش رفت کی رپورٹ حکومتی ویب سائٹ پر جاری کی جائے۔کنٹریکٹس اور جائیداد کے حقوق سے متعلق قانونی فریم ورک کی اپ ڈیٹ کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا جائے اور سول پروسیجر کوڈ کا اپ ڈیٹ شدہ مسودہ پارلیمنٹ کو پیش کیا جائے۔