• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب؛ پہلی ششماہی میں بچوں پر تشدد کے 4ہزار 150واقعات

اسلام آباد ( ایوب ناصر ،خصوصی نامہ نگار) رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران پنجاب میں بچوں پر تشدد کے 4 ہزار 150 واقعات رپورٹ ہوئے، اوسطاً روانہ 23 بچے تشدد کا نشانہ بنائے گئے ، عدالتوں میں سزا کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی،تفتیش، استغاثہ کی سنگین خامیاں بے نقاب ۔ ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق پنجاب بھر میں اس عرصے کے دوران بچوں سے متعلق 4 ہزار 150 مقدمات درج ہوئے، جن میں سے 3 ہزار 989 کیسز چالان ہوئے جبکہ 3 ہزار 791 تاحال زیرِ سماعت ہیں، چھ ماہ کے دوران صرف 12 مقدمات میں سزا سنائی گئی، جو کہ مجموعی کیسز کا نہایت کم تناسب ہے اور تفتیش، شواہد کے حصول، متاثرہ بچوں کی معاونت اور استغاثہ کے مراحل میں سنگین خامیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔جنسی استحصال کے 717 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے 658 چالان ہوئے اور 581 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ اس سنگین نوعیت کے جرم میں ایک بھی سزا نہیں ہو سکی، 12 مقدمات میں بریت اور 8 میں درخواستیں واپس لی گئیں۔ بچوں سے بھیک منگوانے کے سب سے زیادہ 2 ہزار 693 کیسز درج اور 2 ہزار 674 چالان ہوئے، 2 ہزار 669 تاحال زیرِ سماعت ہیں، چائلڈ ٹریفکنگ کے 332 کیسز سامنے آئے جن میں 4 ملزمان کو سزا ہوئی، چائلڈ لیبر کے 182 کیسز میں 8 سزائیں سنائی گئیں۔ جسمانی ہراسانی کے 87 کیسز اور اغوا 27 کیسز مقدمات میں بھی کوئی سزا نہ ہو سکی۔چائلڈ میرج انتہائی کم رپورٹ ہونے والا جرم رہا، جہاں صرف 12 کیسز سامنے آئے اور کسی بھی مقدمے میں سزا یا بریت نہیں ہوئی، جو معاشرتی، ثقافتی اور قانونی رکاوٹوں کو نمایاں کرتا ہے۔ ضلعی سطح پر لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی اور سیالکوٹ بچوں پر تشدد اور استحصال کے نمایاں ہاٹ سپاٹس کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ لاہور میں جنسی استحصال، چائلڈ بیگری اور ٹریفکنگ کے سب سے زیادہ مقدمات رپورٹ ہوئے، ننکانہ صاحب، گجرات اور منڈی بہاؤالدین میں اغوا کی شرح بلند دیکھی گئی۔ایس ایس ڈی او نے زور دیا کہ پنجاب کے بچوں کا تحفظ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، جس کے لیے حکومت، عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے کو ہنگامی بنیادوں پر مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسلام آباد سے مزید