والدہ محترمہ کو اَولاد سے گہرا لگاؤ تھا۔ جو بچے اُن سے دور ہو جاتے، ہر نماز کے بعد اُن کی خیریت کی دعا مانگتیں۔ اُس زمانے میں خط کے ذریعے ہی ایک دوسرے کے حالات سے آگہی ہوتی رہتی۔ بارہا اِس کرشمے نے جنم لیا جب والدہ محترمہ کو گھر سے دور رہنے والے بچوں کی تکلیف کا خود ہی ادراک ہو گیا۔1942ء کی ایک شام بھائی اعجاز اسکول سے پڑھ کر آئے، تو اَمّاں جی نے اُن سے کہا ’’فوراً تیار ہو جاؤ، تمہیں میرے ساتھ مونک جانا ہے۔‘‘ اُنہوں نے کہا ’’امّاں جی! کل چلیں گے۔‘‘ فرمانے لگیں ’’ابھی چلنا ہے، گُل حسن کی طرف سے میرا دل پریشان ہو رہا ہے۔‘‘برادر گُل حسن اُس وقت مونک ضلع کرنال میں محکمۂ انہار کے تاربابو کی حیثیت سے تعینات تھے۔ والدہ کے حکم کی تعمیل میں اعجاز بھائی فوراً تیار ہو گئے۔ امّاں جی کو لے کر اسٹیشن پہنچے۔ پوری رات کے سفر اور دو ریلوے اسٹیشنوں جاکھل اور نروانا پر گاڑی تبدیل کرنے کے بعد اگلے روز علی الصباح کرنال پہنچے۔ وہاں سے مونک تک تقریباً 15 میل کا فاصلہ تانگے پر نہر کے ساتھ ساتھ طے ہوتا تھا۔ نہر کی پٹری پر سفر کی اجازت لینے کے لیے وہ کرنال میں متعلقہ دفتر پہنچے، تو اُنہیں دیکھتے ہی تاربابو فوراً بولا ’’تمہیں گُل حسن کی بیماری کا کیسے پتہ چلا؟ وہ تو ایک ہفتے سے بیمار ہے۔ تار کی لائن پر نہ کوئی پیغام آ رہا ہے، نہ کوئی وصول کر رہا ہے۔‘‘وہ اِجازت لے کر سفر کرتے ہوئے مونک کے تارگھر پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ بھائی گُل حسن چارپائی پر اِس حالت میں پڑے ہیں کہ اُنہیں کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ امّاں جی نے اُنہیں آواز دی۔ ماں کی آواز سنی، تو آنکھیں کھولیں اور اُن کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ ماں کی زیارت صحت کا مژدہ لے آئی۔ تھوڑی دیر بعد پسینہ آیا اور بخار اُتر گیا۔ ہوش و حواس بحال ہونے پر اُنہوں نے بتایا کہ آٹھ دن سے بخار کے ہاتھوں اِسی طرح بےبس پڑے تھے۔دوسرا وَاقعہ اِس سے زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔ ہماری بڑی ہمشیرہ بھٹنڈہ بیاہی گئی تھیں۔ اُن کے شوہر ریلوے میں ملازم تھے۔ اُن کے دو بیٹے تھے جبکہ تیسرے کی آمد متوقع تھی۔ والدہ کو ہمشیرہ کی طرف سے کافی دنوں سے خیریت کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ ایک دن بھائی اعجازا سکول سے لَوٹے، تو اَمّاں جی نے اُنہیں بھٹنڈہ جا کر بہن کی خیریت معلوم کرنے کا کہا اور ہدایت فرمائی کہ چونکہ اُنہیں بیٹی کی صحت کے بارے میں تشویش لاحق ہے، اِس لیے اگر حالت درست نہ پاؤ، تو فوراً اپنے ساتھ سرسہ لے آنا۔وہ اُن کی ہدایت کے مطابق شام کی ریل گاڑی سے چھ بجے سرسہ سے روانہ ہوئے اَور رَات نو بجے بھٹنڈہ پہنچے۔ جب بہنوئی کے کوارٹر گئے، تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ ہمشیرہ نیم بےہوشی کی حالت میں ہیں۔ ہاتھ پاؤں متورم اور رَنگ نیلا پڑ رہا ہے۔ اُس وقت بہنوئی فرائضِ منصبی کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے۔ بمشکل اُن سے رابطہ ہوا، تو ہمشیرہ کو سرسہ لے جانے کا انتظام کرنے کا کہا۔ اُن کا کوارٹر ایسے علاقے میں تھا جہاں سواری ملنا خاصا مشکل کام تھا، لہٰذا ہنگامی طور پر ریلوے انجن کے ساتھ ایک بوگی لگوائی گئی جس میں بٹھا کر اُنہیں اسٹیشن لایا گیا۔جب وہ سرسہ پہنچے، تو بھائی صاحب نے اُنہیں اپنی کمر پر اُٹھا کر تانگے میں سوار کروایا اور گھر لے آئے۔ والدہ محترمہ نے بیٹی کو اِس حالت میں دیکھا، تو اُسی وقت کہہ دیا کہ اب یہ جانبر نہ ہو سکے گی، چنانچہ اُنہوں نے بھائی اعجاز کو بھٹنڈہ جا کر بہنوئی کو بہن کی نازک صورتِ حال سے آگاہ کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ بیوی کے آخری وقت اُن کے پاس موجود ہوں۔ وہ رَات کی گاڑی سے دوبارہ بھٹنڈہ پہنچے۔ بہن کی خطرناک صورتِ حال سے بہنوئی کو آگاہ کیا اور صبح کی گاڑی سے ساتھ چلنے کا کہا۔ بہنوئی نے بتایا کہ اُن کی ڈیوٹی ایسی ہے کہ اپنا متبادل فراہم کیے بغیر چھٹی نہیں کر سکتے۔ اِس غرض کے لیے بہنوئی اعجاز بھائی کو ہمراہ لے کر انچارج کے گھر گئے، بیوی کی شدید علالت کا حال بتایا اور کہا کہ برادرِ نسبتی بیوی کی علالت کی خبر دینے سسرال سے آیا ہے۔افسر نے کہا اِس صورتِ حال کا کوئی تحریری ثبوت خط یا تار کی صورت میں نہیں، لہٰذا اُنہیں جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بھائی اعجاز اگلے دن صبح کی گاڑی سے واپس سرسہ پہنچے اور اُسی دن بہن کا انتقال ہو گیا۔ بہن کے شوہر ریلوے میں معمولی ملازم تھے لیکن ہمشیرہ نے اُن کی غربت کی کبھی شکایت نہ کی، البتہ والدہ سے یہ شکایت ضرور کی کہ آپ نے مجھے ایک بےنمازی اور فلم کے رسیا سے بیاہ دِیا۔دوسری بہن کی شادی تقریباً 1930ء میں ہوئی تھی اور وُہ سترہ سال بہنوئی کی زوجیت میں رہیں، لیکن اُن کی زندگی کا یہ عرصہ سوتیلی ساس اور نندوں کے ساتھ بسر ہوا۔ شوہر نے ساری زندگی کوئی کام نہ کیا اور نہ اُنہیں کبھی کوئی خوشی دی۔ اُن کے کوئی اولاد بھی نہ ہو سکی۔ اِس کے باوجود آخری وقت تک اُنہوں نے مشرقی عورت ہونے کا ثبوت دیا۔ اسپتال میں جہاں وہ آپریشن کے لیے لائی گئی تھیں، حالت غیر ہونے پر والدہ سے کہا ’’میرے بعد اکرام (شوہر) کا کیا بنے گا؟‘‘ اُن کے سسر، سوتیلی ساس اور نندوں کو اُن سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی۔امّاں جی کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں بچپن میں ہی انتقال کر گئی تھیں۔ امّاں جی نے صدمے کے ہر ایسے موقع پر صبروضبط سے کام لے کر رب کے فیصلے کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا۔ آنسو ضرور بہائے، مگر بےصبری اور جزع و فزع کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالا۔ دونوں بڑی بہنوں کا انتقال ہمارے سامنے ہوا۔ دونوں شادی شدہ تھیں۔ بڑی کا سرسہ میں 1945ء میں اور دُوسری کا جون 1947ء میں مشن اسپتال بھوانی ضلع حصار میں انتقال ہوا۔ غم و اَندوہ اَور رَنج کے اِن ہر دو مواقع پر امّاں جی نے تسلیم و رَضا کی اعلیٰ صفات کا جو مظاہرہ کیا، وُہ وَاقعی اُنہی کا خاصا تھا۔ کمر پر پٹکا کَس کر اپنی بچیوں کو خود غسل دیا اور نہلا دھلا کر بڑے صبروسکون سے اُنہیں اللّٰہ کے حوالے کیا۔