مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ہمارے جیتے رہنےکا بڑا سبب ہی نہیں ہوتے، حیاتی کا دشوار گزار سفر آسان تر کرنے کا بہترین ذریعہ بنتے ہیں۔ جن کی ایک مُسکراہٹ میں گھر بَھر کی رونقیں، خُوشیاں سموئی ہوتی ہے۔ میرے پیارے انتہائی مُشفق، مخلص اور درد مند بھائی خلیل الرحمٰن بن انیس الرحمٰن مرحوم (انیس قوم) بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ جن کی اچانک ناگہانی وفات نے میرے دل کی دنیا ہی ویران، ریگستان نہیں کی، میرے میکے کے درودیوار کو بھی مہیب سناٹوں کے سپرد کردیا ہے۔ میرا پیارا بھائی، میرے والد ہی کی طرح بہت وجیہہ،خُوب رُو تھا۔
خلیل گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین اور کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سینئر نائب عہدے پر فائز، میرا بھیا1960ء میں کراچی میں پیدا ہوا۔ بہت بذلہ سنج، ہمہ جہت شخصیت کا مالک، سماجی و کاروباری حلقوں میں نہایت مقبول۔ خوش گفتاری کے ساتھ خوش لباسی بھی اُس کی خاص پہچان تھی۔ اُس کی انتہائی رکھ رکھاؤ، بھرپورجاذبیت سے آراستہ شخصیت ایک ہی ملاقات میں لوگوں کے دِلوں میں گھر کر لیا کرتی۔ صارفین کےحقوق کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا۔
اُس کے اندازِ گفتگو سے بےحد نرمی و ملائمت، رویے سے محبّت وشفقت اورعمل سے احساسِ ذمّےداری گویا اُمڈے پڑتے۔ اپنے تو اپنے، غیر بھی بھائی کی میٹھی، شائستہ زبان کے گرویدہ تھے۔ آج وہ میرے ساتھ نہیں، پاس نہیں، بس ایک خلا رہ گیا ہے، جو اُس کے جانے کے بعد بھی اُس کی باتوں، یادوں، اور اُس کی خُوشبو لب ریز ہے۔
میری بچپن کی شرارتوں کا ساتھی، میرا پیارا بھائی، مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا ہے۔ اُسے ’’مرحوم‘‘ لکھتے ہوئے بھی ہاتھ مسلسل لرز رہے ہیں۔ اُس کی اچانک جدائی نے سارے خاندان، وسیع حلقۂ احباب کو سخت رنجیدہ، سوگوار کردیا ہے۔ اَن گنت دُکھی دِلوں، دوستوں، عزیزوں اور کئی ایسے لوگوں نے، جنہیں مَیں ناموں سے بھی نہیں جانتی، اُس کے لیے دُعاؤں کے ہدیے بھیجے ہیں کہ وہ سب اُس کی نیکی و بھلائی، خیرخواہی کے گواہ تھے۔ کس کس نے آ کر بھائی کے لیے اشک نہیں بہائے، دُعائیں نہیں کیں۔ یقیناً یہ سب میرے بھائی کی خُوبیوں کا زندہ ثبوت ہے۔
میرا شان دار بھائی، اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔ وہ محض ایک شخص نہیں، ہماری زندگیوں کا محور و مرکز تھا۔ گھرکی ہر ہل چل اُس کے وجود سے ترتیب پاتی تھی۔ کسی کو، کسی سے کوئی بات منوانی ہوتی، کسی بات کو فیصلے، نتیجے پر پہنچانا ہوتا، کوئی اہم مشورہ درکار ہوتا، کوئی دُکھ شیئر کرنا ہوتا۔ میرا ہردل عزیز بھیّا ہر دَم حاضر ملتا۔ ’’چندا! فکر کیوں کرتی ہو، مَیں ہوں ناں!!‘‘ میرے لیے جیسے اس کا تکیۂ کلام تھا۔
شائستگی وشگفتگی کے ساتھ سنجیدگی و بردباری کا مرقّع، ہر جگہ اپنے وقار کا لمس چھوڑ جاتا۔ اُس کی گفتگو میں دانش، چال میں تمکنت، تو خاموشی میں بھی اِک شفقت والفت سی رچی بسی تھی۔ اُس کے جانے کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے، جیسے گھر کے آنگن سے گھنیرا، چھتنار درخت کٹ گیا ہو۔ ایسا درخت، جس کی چھاؤں میں ہم برسوں بیٹھے رہے۔
جس کے سائے نے کبھی دھوپ کو سخت نہیں ہونے دیا۔ آج بےسائبانی کا احساس شدید ترہے۔ تعزیت کے لیے آنے والی خواتین کے چہروں پربھی وہی دُکھ دیکھا، جو خُود ہماری روحوں میں کھنڈ گیا ہے۔ ایساحزن وملال صرف کسی ”اچھے انسان“ کے چلے جانے ہی پر ہوسکتا ہے۔
کوئی اُن کے رویّوں کی خُوب صُورتی یاد کررہا تھا، کوئی اُن کے جذبۂ اخلاص، ہمہ وقت دوسروں کی مدد و خدمت کے لیے کمر بستہ رہنے کی عادت کا ذکر اور کوئی خاموشی سے بس دُعاؤں کے نذرانے دے کر لوٹ گیا۔ بس، ہر ایک کی زبان پراُن کی اچھائیاں،آنکھوں میں غم کی پرچھائیاں تھیںاور یہ سب گواہیاں تھیں کہ اُن کا کردار الفاظ سے بڑا، خدمت دکھاوے سے پاک تھی۔
اب اندازہ ہوا ہے، کچھ رشتے وقت کےنہیں، دل کے ہوتے ہیں۔ میرے بچپن کی ہر ہر یاد کا شریک میرا ہیرے جیسا بھائی، جس کی دُعائیں، مسکراہٹیں میرے جینے کا حوصلہ تھیں۔ جو محض ایک شخص نہیں، میرے لیےایک پورا جہان تھا۔ آج اُس کی کرسی خالی ہے، مگروہ تومیرے دل کی نشست پربراجمان ہے۔
گھر کے درودیوار سے بھی اُس کی مہک پھوٹ رہی ہے۔ کسی جملے کے کنارے،کسی دُعا کے وقفے ، کسی خاموشی کی تہہ میں، کہاں کہاں نہیں ہے وہ۔ کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ ایک دن یوں بھی لکھنا پڑے گا، اپنے ماں جائے کے لیے، جو میری سانسوں میں خوشبو کی طرح بسا ہوا تھا اور اب اچانک رخصت ہو کرہمیں دائمی سناٹے کے سپرد کر گیا ہے۔
وہ بھائی، جو دروازہ کھولتے ہی آنکھوں میں روشنی لے آتا تھا، جس کے ہنسنے سے گھر کی دیواریں بھی مُسکرا اٹھتی تھیں۔ آج وہ کہیں نہیں ہے۔ صُبحیں وہی ہیں، راتیں بھی ویسی ہی ہیں، مگر ہر طرف ایک خلاہے۔ وہ نام، جوپہلے زندگی کی آسانیوں کے لیے پکارا جاتا تھا، اب لرزتے ہونٹوں سے رحمت و مغفرت کی دعاؤں کے لیے لیا جارہا ہے۔
وہ جو چراغ کی مانند دِلوں میں روشن تھا۔ جس کا ہاتھ، ہم بہنوں کے سَروں پر دبیز چھتری کی صورت تھا۔ ہمارا میرِ کارواں، ہر مشکل میں حوصلہ، ہر دُکھ میں کندھا دینے والا چلا گیا۔ جب تک تھا، چہار سُو روشنی تھی، اور اب یوں لگ رہا ہے، جیسے کہیں کچھ رہاہی نہیں، گھورا ندھیروں اور تاریکی کے سوا۔
کچھ چہرے صرف آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں، لیکن دِلوں میں ہمہ وقت موجود رہتے ہیں اور میرے بھیا کا چہرہ بھی ایسا ہی تھا۔ تب ہی اندر و باہر کا سناٹا بھی بولتا سامحسوس ہورہا ہے۔ آنکھیں نم ہیں، دل بے قرار، مگراس کی دی ہوئی بےشمار محبتوں، شفقتوں، دُعاؤں کی مہک، یادوں کی کرنیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ رہ رہ کے بس یہی یاد آتا ہے، کوئی پریشانی ہو، مدد چاہیے ہو، کسی کودل جوئی کی ضرورت ہو، وہ سب سے پہلے کھڑا ہوتا تھا۔
بغیر دکھائے، بغیر بتائے، سب خُود پر لے کر دوسروں کو بالکل ایزی کردیتا تھا۔ خُود تھک جاتا تھا، مگر ہمیں تھکنے نہیں دیتا تھا۔ خُود ٹوٹ جاتا، پر ہمیں مضبوط کرتا رہتا۔ اُس کے چہرے پہ ہمہ وقت رہنے والی مسکراہٹ ہماری اصل راحت تھی۔ اس کو’’تھا‘‘ لکھتے ہوئے بھی دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مترنم آواز کانوں میں گونجے جا رہی ہے۔ مَیں کیسے مان لوں کہ جو ہر لمحہ سب کے لیے فکرمند رہتا، وہ اب کبھی نہ لوٹے گا۔
دل خالی، فون کی گھنٹی خاموش ہے۔ جس کے میسیجز سے دل اطمینان سے بھر جاتا تھا کہ ہرطرف خیریت ہے۔ اب اُسی کے لیے دل تڑپ رہا ہے، اےکاش! اُس کی کال، کوئی میسیج آجائے۔ کہیں سے کسی بھی طرح اس کی آواز سنائی دے۔’’تم کوئی سیکرٹیری رکھ لو۔ ماسٹرنی جی کو کب سے کال ملا رہا ہوں۔ فون ہی نہیں اُٹھاتی…‘‘ ہائے! میرے شہزادے بھائی کی پیاربَھری ڈانٹ، مَیں کسی طور پھر سے سن پاؤں۔
میری اپنے بھائی سے تقریباً روزانہ ہی بات ہوتی تھی۔ امّی کے لیے ازحد فکرمند رہنا، ہر روز فون کرکے امّی سے متعلق پوچھنا گویا معمول تھا۔ بدھ کے روز، جماعتِ اسلامی کے اجتماعِ عام میں جانے سے پہلے میری اُس سے آخری بار بات ہوئی۔ آخری جملہ یہی تھا۔ ’’تُو فکر نہ کر، مَیں ہوں ناں۔‘‘ ہفتے کے روز موبائل ڈیٹا اور نیٹ سگنلز کی بندش کے باوجود میرے رب نے ذریعہ بنا دیا۔ نہ صرف مجھے وہاں مینارِ پاکستان میں اُس کے چلے جانے کی بروقت اطلاع مل گئی، بلکہ اتنے ہجوم سے میری واپسی بھی آسان ہوگئی اور مَیں نے اپنے پیارے بھائی کا مُسکراتا چہرہ آخری بار چوم لیا، وگرنہ تو شاید عمر بھر کی خلش ہی رہ جاتی۔
کبھی وہ میرے ماتھے پرشفقت سے بوسہ دیتا تھا،مگرآج میری باری تھی اورجواباً وہ ساکت تھا۔ جیتا ہوتا تو ساتھ لپٹا لیتا۔ اب تو بس دُعائیں ہی رہ گئی ہیں۔ یا رب العالمین! اُس کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اُس کی قبر کو ایک ٹھنڈی روشن، ہوادار اور پُرسکون جگہ بنا دے۔ جس طرح وہ دوسروں کی حاجت روائی کرتا تھا، تُو اُسے جنّت کے انعام و اکرام سے نواز اور ہمیں ہمّت و طاقت دے کہ اُس کے نقشِ پا پر چلنے کی سعی کریں۔ اُس کے درجات بہت بلند فرما، اُسے اپنا قرب عطا کر۔
بےشک، تیرے فیصلے برحق ہیں، لیکن اےاللہ پاک! ہر ماں، ہر بہن کو ایسی کڑی آزمائش سےمحفوظ رکھ کہ ہمارے بیچ سے وہ چلا گیا ہے، جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اے میرے پیارے، شہزادے بھائی! مَیں نے جانا کہ جدائی صرف فاصلہ نہیں، گزرتے وقت کا سب سےگہرا استعارہ بھی ہے۔
گو، دل غم سے بَھرا ہے، مگر شُکر سے مالا مال بھی ہے کہ اللہ نے ہم بہنوں کو ایسا بھائی دیا، جو محض بھائی نہیں، ہمارے لیے باعثِ رحمت و برکت تھا۔ ہم سب تہہ دل سے دُعاگو ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے عظیم بھائی کی تمام تر لغزشیں معاف فرمائے اور اُس کی سب محنتوں، بےلوث خدمتوں، محبّتوں، شفقتوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے۔ اور… میری ماں کوہمت وحوصلہ عطا فرمائے کہ وہ اِس پہاڑ جیسے صدمے کو سہار سکیں۔ (آمین) (عالیہ شمیم، کراچی)