• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ تبدیلیاں آتی ہیں اور نئے نئے عہد طلوع ہوتے ہیں۔ طلوع و غروب کا یہ سلسلہ تھمتا ہی نہیں اور اِسی کا نام زندگی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا میں مسلمان عروج پر تھے۔ وہ دَانائی اور علم و تحقیق میں سب سے آگے تھے۔ صدیوں بعد علم و تحقیق کی جگہ عیش و عشرت نے لے لی، چنانچہ فطرت کے اُصولوں کے مطابق اُن پر زوال آتا چلا گیا جس کا دائرہ ایشیا کے بعد یورپ کی طرف بھی پھیلتا جا رہا تھا۔

اُس میں زوال کے آثار اُبھرنے لگے اور کمال اتاترک نے کمال بصیرت اور شجاعت سے کام لیتے ہوئے ترکی کو اَغیار کی غلامی سے تو محفوظ رکھا، مگر وہ عرب سلاطین کے طرزِ عمل سے بدظن ہو کر عربی زبان کا اِس قدر مخالف ہوا کہ اُس نے اپنی مملکت میں عربی میں اذان دینے اور قرآن حکیم کی تلاوت پر پابندی عائد کر دی۔ وہ سرزمین جو کبھی اسلام کی قوت کا مرکز تھی، وہاں سے اسلام ہی کو دیس نکالا دے دیا گیا تھا۔

اِس سے قبل یورپ میں انقلابِ فرانس اور اِنقلابِ روس برپا ہو چکے تھے اور نئی نئی سائنس کی دریافتیں وجود میں آ رہی تھیں اور پیداوار کے نت نئے ذرائع دریافت ہو رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ پوری دنیا سرمایہ داری اور اِشتراکیت کے نظام کا حصّہ بن جائے گی اور اِسلام کیلئے اپنی بقا کے امکانات بالکل ختم ہوتے جائینگے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی سال مسلمانوں کیلئے سخت امتحان کا عہد تھے، مگر اُن حالات میں ہندوستان سے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی ایک ایسی تحریک اٹھی جس نے عالمی نظام ہائے زندگی کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔ حکیم الاُمت ڈاکٹر محمد اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے مسلمانوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالا اور اُنہیں ایک بار پھر امانت کا منصب سنبھالنے کا حیات افروز پیغام دیا۔ اُس زمانے میں علی برادران نے خلافت کی تحریک اِس ایمانی قوت اور عوامی جوش و خروش سے اُٹھائی کہ ترکی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاست یکسر تبدیل ہو گئی۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ایثار سے ترک عوام اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُن کے مابین قرابت کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو ایک نئے عہد کی ابتدا پر منتج ہوا اور اِسکے گہرے اثرات نکل کر سامنے آنے لگے ہیں۔

مَیں دسمبر 1968ء میں ترکی کے وزیرِاعظم سلیمان ڈیمرل کا انٹرویو لینے انقرہ گیا۔ اُس وقت اسلامی فکر سے وابستہ لوگ حکومت میں تھے اور اِسلام کی تعلیم دینے والے مراکز قائم کیے جا رہے تھے، مگر یہ سب کچھ سیکولر نظامِ حکومت کے تحت کیا جا رہا تھا کیونکہ مصطفیٰ کمال نے سیکولر نظام کے حق میں اِس قدر پروپیگنڈا کیا تھا کہ اُس کا نام تبدیل کرنے کی کوئی جرأت نہیں کر سکتا تھا، تاہم عوام کے اندر قرآن کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کا ذوق و شوق دیدنی تھا۔ترکی کو غیروں کی غلامی سے محفوظ رکھنے میں ترک فوج نے اہم کردار اَدا کیا تھا، اِس لیے ترک دستور میں فوج کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی تھی اور حکومت سازی میں اُسے بڑے اختیارات حاصل تھے۔ اُن اختیارات کے بارے میں سنجیدہ طبقات میں یہ چہ مہ گوئیاں ایک عرصے سے ہو رہی تھیں اور ترکیہ کے موجودہ صدر ایردوان بتدریج ایسی پالیسیاں اختیار کرتے جا رہے تھے جن کا مقصد فوجی اختیارات محدود کرنا تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب فوج نے صدر ایردوان کے خلاف بغاوت کر دی، تو عوام باہر نکل آئے اور وُہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور بغاوت ناکام ہو گئی۔

صدر ایردوان نے حسبِ ضرورت دستور میں ترمیم کی، فوج کا رول یکسر ختم کر دیا اور ترکی کا نام جو اَصل میں ترکیہ تھا، اُسے بحال کیا اور اِسلام کی بالادستی کا اعلان کیا۔ اِس عظیم انقلاب کے نتیجے میں ترک عوام کی توانائیوں اور آرزوؤں میں حیرت انگیز تبدیلی آئی اور ایک نیا معجزہ دیکھنے میں آیا۔ ترکیہ مسلمانوں کے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی لینے لگا اور مسلم کاز کے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرنے لگا۔ فلسطین کا ایشو ہو یا کشمیر کا تنازع، ترکیہ اقوامِ متحدہ میں پوری قوت سے آواز اُٹھاتا اور اِسرائیلیوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور وُہ گزشتہ چند عشروں میں مسلم کاز کا سب سے بڑا چیمپئن بن کر اُبھرا ہے۔

اِس سال مئی کے مہینے میں بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنا چاہا، تو پاکستان نے چار روزہ جنگ میں بھارت کے سات جنگی طیارے مار گرائے اور اُسے ہولناک شکست سے دوچار کر ڈالا۔ اِس جنگ میں پاکستانی ہوابازوں نے کمال مہارت سے چین کی ٹیکنالوجی استعمال کی اور چین کے اشتراک سے تیار کیے گئے جے ایف تھنڈر۔17طیارے بروئےکار لائے تھے۔ بھارتی فوج تعداد اَور اَسلحے میں پاکستان سے کوئی دس گنا طاقت ور تھی۔ پاکستان کی اِس کامیابی نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا جس کی مسلح افواج کی قیادت سپہ سالار جنرل سیّد عاصم منیر کر رہے تھے۔ اُن کی شجاعت اور فوجی حکمتِ عملی سے متاثر ہو کر امریکی صدر ٹرمپ نے اُنہیں وائٹ ہاؤس میں کھانے پر مدعو کیا اور پاکستانی قوم اور اُس کی فوجی قیادت کی دل کھول کر تعریف کی۔ اِس کے بعد مسلمانوں پر نئی عظمتوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم سے ترکیہ نے بیس برسوں کی جنگی ریاضت سے ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کر لیا ہے اور ایک ایسا طیارہ ایجاد کیا ہے جو بہترین جنگی ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔ جنگی اُمور کے عالمی ماہرین اِس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اِس کی ٹیکنالوجی سے امریکا، روس اور یورپی یونین کی ٹیکنالوجی مات کھا گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا دور لَوٹ آیا ہے اور اِس کا سہرا ترکیہ کے صدر ایردوان کے سر بندھتا ہے۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ترکیہ نے پائلٹ کے بغیر ڈرون طیارے بنانے کا کارخانہ پاکستان میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے پاکستان کی ٹیکنالوجی میں غیرمعمولی پیش رفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ دونوں ملک اپنے اشتراکِ عمل سے جنگی منصوبوں میں پوری دنیا پر حاوی ہو جائیں گے جس سے عالمی امن کو تقویت پہنچے گی اور یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکے گی کہ اکیسویں صدی مسلمانوں کی صدی ہے۔

تازہ ترین