تحریم فاطمہ
صفحہ نمبر1 :
پیاری ڈائری! آج ’’فرینڈ شپ ڈے‘‘ ہے… یعنی ’’یومِ دوستی‘‘ سوشل میڈیا پر جگہ جگہ دل والے ایموجی، دوستی کے موضوع پر اقوال، اور تصاویر کی بھرمار ہے۔ سب اپنے اپنے دوستوں کو ٹیگ کررہے ہیں، محبت بھرے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ مگر مَیں…؟ میرے پاس تو صرف تم ہی ہو… یہ چند الفاظ… اور طویل، گہری خاموشی۔
صفحہ نمبر2 :
کبھی کبھی سوچتی ہوں، آمنہ چلی گئی یا مَیں نے ہی اُسے کھو دیا؟ یاد ہے وہ دن، جب ہم چھٹی جماعت میں پہلی بار ساتھ اسکول آئیں؟ میری چوٹی ٹیڑھی تھی اور وہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔ ’’چلو، تمہاری چوٹی سیدھی کر دوں… تاکہ ہم دونوں ایک جیسی لگیں۔‘‘ اور پھر وہ ہر دن میری ہر ٹیڑھی بات، ہر الٹی سوچ، ہر بھٹکی خواہش سیدھی کرتی چلی گئی۔
صفحہ نمبر3 :
آج صبح آمنہ کا میسیج آیا تھا، چھوٹا سا۔ ’’یاد آئی تمہاری، آج کا دن تمہارے بغیر ویسا نہیں لگ رہا، جیسے پہلے ہوا کرتا تھا۔‘‘ مَیں نے کئی بار موبائل دیکھا۔ کئی بار جواب لکھا، مٹایا… آخرمیں بس ایک جملہ لکھ بھیجا۔ ’’کیا ہم ویسے کبھی ہو سکتے ہیں؟‘‘ جواب نہیں آیا… مگر دل نے محسوس کیا کہ وہ بھی یہی سوچ رہی ہوگی۔
صفحہ نمبر 4 :
پیاری ڈائری! دوستی کا سب سے قیمتی لمحہ وہ نہیں ہوتا، جب سب ہنس رہے ہوتے ہیں… بلکہ وہ ہوتا ہے، جب تم رو رہے ہو، اور کوئی بِنا کچھ کہے تمہارے پاس بیٹھ جائے۔ آمنہ ایسا ہی کرتی تھی۔ جب امّی کی وفات ہوئی، تو سب افسوس کرنے آئے۔ مگر وہ واحد تھی، جس نے کچھ نہیں کہا۔
بس میرا ہاتھ تھاما اور میرے ساتھ خاموش بیٹھی رہی۔ مَیں نے تب بھی اُسے کہا تھا۔ ’’تم کچھ بولتی کیوں نہیں؟‘‘ جواباً اُس نے صرف اتنا کہا۔ ’’تمہیں سُننے سے زیادہ، محسوس کرنےکی ضرورت ہے اور میں تمہیں محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
صفحہ نمبر5 :
آج لان میں بیٹھے بیٹھے مجھے اُس کی آخری ناراضی یاد آئی۔ ’’سب بدل گئے ہیں، بشرٰی… تم بھی۔‘‘ ’’مَیں تو وہی ہوں، آمنہ… بس زندگی نےتھوڑا سا بدل دیا ہے۔‘‘ میرا جواب تھا۔ ’’نہیں، زندگی نے نہیں، تم نے خود کو ہم سے الگ کر لیا ہے۔‘‘ تب مجھے لگا، وہ زیادتی کررہی ہے۔ مگر آج احساس ہوا… شاید وہ سچ ہی کہہ رہی تھی۔ زندگی کی دوڑمیں ہم سب کچھ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ خواب، وعدے… اور دوست بھی۔
صفحہ نمبر 6 :
پیاری ڈائری! جب کوئی دوست روٹھتا ہے، تو دل کا ایک حصّہ خالی ہوجاتا ہے۔ آج مَیں نے وہ پرانا ڈائری کا صفحہ نکالا، جس پر ہم نے ’’فرینڈ شپ رُولز‘‘ لکھے تھے۔ کبھی ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ روز بات کریں گے، چاہے ایک منٹ سہی۔ اگر ایک ناراض ہوگا، تو دوسرا منائے گا۔
شادی ہو بھی جائے، دوستی قائم رہے گی۔ بڑھاپے میں بھی ایک ساتھ چائے پئیں گے اور پھر ہم دونوں خوب ہنسی تھیں۔ مَیں نے مذاقاً کہا تھا۔ ’’ بھلا بڑھاپے تک کون ساتھ رہتا ہے، یار!‘‘ تو اُس نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ ’’سچّے دوست رہتے ہیں…‘‘
صفحہ نمبر 7 :
اور… آج جب مَیں اتنی تنہائی میں چائے کا ایک کپ تھامےبیٹھی ہوں، تومجھے وہ بڑھاپے والا وعدہ یاد آ رہا ہے۔ ہم بوڑھے بھینہیں ہوئے… مگر دوستی تھک گئی ہے۔ اب سمجھ آتا ہے، رشتے خون سے نہیں، نبھانے سے بنتے ہیں۔ اور دوستی… وہ تو بس ’’نبھاؤ‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔
صفحہ نمبر 8 :
پیاری ڈائری! شام ہونے والی ہے۔ آسمان پر نارنجی بادلوں نےکیا خُوب صُورت منظر بکھیر رکھا ہے۔ میری آنکھوں میں نمی ہے، مگر دل میں ایک نرمی سی ہے، کیوں کہ آمنہ کا ایک اور میسیج آیا ہے۔ ’’پتا ہے، بشرٰی…! ’’دوستی کا دن‘‘ بس کارڈز یا تحفے کے لیے نہیں ہوتا۔ یہ دن دِلوں کے درمیان بند دروازے کھولنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر تم کہو… تو مَیں کل آ جاؤں؟‘‘میری مسکراہٹ بے اختیار تھی۔ مَیں نے جواب دیا۔’’دروازےکبھی بندہی نہیں ہوئے تھے، آمنہ۔‘‘
صفحہ نمبر 9 :
آج مجھے احساس ہوا…سچّی دوستی نہ تو وقت کی محتاج ہوتی ہے، نہ فاصلے کی، نہ لفظوں کی۔ بس نیّت، خلوص…اور’’واپسی کی گنجائش‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سچّے دوست چلے بھی جائیں… تو لوٹ آتے ہیں۔
آخری صفحہ:
پیاری ڈائری! کل آمنہ آئے گی۔ شاید وہی پرانی چائے، وہی قہقہے، وہی بچپن والی خوشبو… واپس لوٹ آئے۔ ’’یومِ دوستی‘‘ پراِس سے بڑا تحفہ اور کیا ہوگا۔ سچ یہی ہے کہ ’’دوستی کا رنگ، خواہ کسی بھی سبب، کچھ دیر کے لیے ماند بھی پڑ جائے، لیکن اگر سچّا ہو، تو کبھی مٹتا نہیں۔‘‘