کراچی (رفیق مانگٹ)بونڈی بیچ حملہ، سوشل میڈیاپر پاکستان مخالف منظم پروپیگنڈا، جعلی دعوے اور پرانی تصاویر سے پاکستانی شہریوں کو ملوث دکھانے کی کوششیں، حملہ آور کی شناخت نوید اکرم کے طور پر ہوئی، کسی پاکستانی تعلق کی تصدیق نہیں، سوشل میڈیا پر افغانستان، ایران اور لبنان کے ساتھ بھی جوڑنے کی کوششیں، آسٹریلوی پولیس اور حکومت نے قومیت یا مذہب کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔ تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور پولیس نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ حملہ آوروں کی تعداد دو تھی، جن میں سے ایک موقع پر ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی حالت میں حراست میں ہے۔آسٹریلوی پولیس نے حملہ آوروں کی سرکاری طور پر شناخت جاری نہیں کی، لیکن معتبر آسٹریلوی میڈیا ذرائع نے قانون نافذ کرنے والے افسران کے حوالے سے ایک حملہ آور کی شناخت کی ہے۔ آسٹریلوی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق ایک حملہ آور کی شناخت نوید اکرم کے نام سے ہوئی ہے۔ وہ 24 سالہ نوجوان ہے جو سڈنی کے جنوب مغربی علاقے بونی رگ کا رہائشی تھا سڈنی مارننگ ہیرالڈ نے لکھا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے برک لیئر (اینٹوں کا کام کرنے والا) تھا۔ نوید حال ہی میں نوکری سے فارغ ہوا تھا۔ پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور ایک کار سے امپرووائزڈ دھماکہ خیز آلات برآمد کیے گئے۔دوسرے حملہ آور کی شناخت اور تفصیلات اب تک جاری نہیں کی گئ۔ حملے کے فوراً بعد بعض غیر ملکی اور علاقائی میڈیا اداروں، خصوصاً سوشل میڈیا اور چند بھارتی و اسرائیلی پلیٹ فارمز یروشلم۔پوسٹ پر پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا دیکھنے میں آیا۔ بغیر کسی سرکاری تصدیق کے حملہ آور کو پاکستانی نژاد یا پاکستان سے منسلک قرار دیا گیا، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر جعلی ڈرائیونگ لائسنس، پرانی تصاویر اور غیر مصدقہ دعوے گردش کرنے لگے۔ کچھ رپورٹس میں اداروں اور شہروں کے نام جوڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حملے کے تانے بانے پاکستان سے ملتے ہیں۔سوشل میڈیا پوسٹس میں حملہ آورز کا تعلق افغانستان، ایران اور لبنان سے بھی جوڑا گیا ہے۔تاہم معتبر آسٹریلوی ذرائع—جن میں پولیس، ABC News اور Sydney Morning Herald شامل ہیں—نے واضح طور پر نہ تو حملہ آور کی قومیت اور نہ ہی مذہب کی سرکاری تصدیق کی۔ آسٹریلوی پولیس اور حکومت نے حملہ آوروں کی قومیت یا مذہب پر کوئی سرکاری بیان نہیں دیا۔ تمام تفصیلات قانون نافذ کرنے والے افسران کے نامعلوم ذرائع یا میڈیا رپورٹس پر مبنی ہیں۔ تحقیقات جاری ہیں، اور غلط معلومات سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔