• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدہ کا معمول تھا کہ جب سالن پکاتیں، تو اُس کا کچھ حصّہ پڑوس کے دوتین گھروں کو ضرور بھیجتیں۔ سرسہ میں ہمارے پڑوس میں ایسے مزدورپیشہ لوگ بھی آباد تھے جو سارا دِن محنتِ شاقہ کرنے کے باوجود صرف اتنا حاصل کر پاتے کہ روکھی سوکھی سے اپنا اور بال بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ اُن کے لیے سالن کا یہ معمولی تحفہ نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہوتا۔خلقِ خدا کی نفع رسانی کے لیے امّاں جی نے ایک صندوقچی رکھی ہوئی تھی جس میں کچھ دیسی منفرد اَشیا مثلاً سونف، اجوائن، کالانمک، سونٹھ، پودینہ، جائفل، ملٹھی اور گُل بنفشہ ہر وقت موجود رَہتیں۔ خواتین بچے لے کر آتیں اور اُن کی تکالیف بتاتیں۔ امّاں حسبِ حال، بلامعاوضہ صندوقچی میں سے کوئی نہ کوئی دوا دَے دیتیں۔ اللّٰہ کریم معمولی دواؤں ہی کو بیماروں کے لیے صحت یابی کا سبب بنا دیتا۔سرسہ گرم ریگستانی علاقے میں واقع ہے۔ گرمیوں کے موسم میں آشوبِ چشم کی بیماری وبا کی صورت اختیار کر لیتی۔ چھوٹے بچے زیادہ متاثر ہوتے۔ تکلیف شروع ہوتے ہی آنکھیں سرخ ہو کر اُبل پڑتیں۔ دوتین دن ہی میں اُن میںکُکرے پڑ جاتے جس سے مریض کو بےحد اذیت اور تکلیف محسوس ہوتی۔ بچہ ساری رات سوتا نہ گھر والوں کو سونے دیتا۔امّاں جی ایسے بچوں کی آنکھوں میں رات کے وقت اپنے ہاتھ سے جست کا سفوف ڈالا کرتیں۔ اللّٰہ نے اُن کے ہاتھ میں کچھ ایسی شفا رکھی تھی کہ دوبارہ دَوا ڈالنے سے آنکھ بالکل صاف ہو جاتی۔ نمازِعشاء کے بعد اکثر خواتین بچوں کی آنکھوں میں دوا ڈلوانے آتیں مگر کیا مجال کہ امّاں جی کی طبیعت میں کبھی جھنجلاہٹ کے آثار پیدا ہوئے ہوں۔ ہر آنے والی سے خیریت دریافت کرتیں۔ خندہ پیشانی سے اُنھیں عزت کے ساتھ بٹھاتیں۔ وہ سرورِکائنات ﷺ کے اِس پاکیزہ اِرشاد پر عمل کرتیں ’’اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے۔‘‘سرسہ میں قیام کے دوران محلے کی عورتیں چھوٹی موٹی ضروریات کے پیشِ نظر قرضِ حسنہ لینے آتیں۔ امّاں جی اُن کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کے لیے خاموشی سے قرض دے دیتیں۔ بعض دفعہ اِس طرح اُنھیں اپنی ضروریات مؤخر کرنا پڑتیں۔ فرمایا کرتیں ’’دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اُنھیں پورا کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اِس عمل سے اللّٰہ خوش ہوتا ہے۔‘‘ اُن کا پختہ یقین تھا کہ اگر مَیں اللّٰہ کے بندوں کا کام سنواروں گی، تو اَللّٰہ میرے کام سنوارے گا۔سرسہ میں پڑوس میں کچھ ایسے گھر بھی تھے جن کے مرد ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتے۔ اُن گھروں کی خواتین میں کوئی ہماری منہ بولی خالہ تھی، کوئی پھوپھی اور کوئی بہن۔ وہ ہمارے لیے سراپا شفقت تھیں اور ہم اُن کی خدمت کو خوشی کا موجب سمجھتے۔ سب بھائی اُن کے گھروں کا سوداسلف لا دیتے، سروں پر دانے اُٹھا کر چکّی پر پسوا لاتے اور ٹال سے لکڑیاں اُٹھا کر اُن تک پہنچاتے۔ اُن کی طرف سے دعائیں ملتیں جنہیں وصول کر کے خوشی کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ امّاں جی کے پاس بہت سی بزرگ عورتیں آتیں۔ وہ اُنھیں نہلاتیں، اُن کے سر گوندھتیں۔پڑوس میں اگر کوئی بچہ یا خاتون بیمار پڑ جاتی، تو اُن کی عیادت کرنا، مریض کی پسند کی چیز تیار کر کے لے جانا والدہ کا معمول تھا۔ پڑوس میں ایک خالہ حکیمن تنہا رہتی تھیں۔ کبھی کبھی اکلوتے بیٹے کے پاس جو محکمۂ انہار میں ملازم تھا، چلی جاتیں اور پھر وہاں سے واپس آ کر اکثر بہو کی زیادتیوں کا ذکر کرتیں۔ اُن کے بھائی، بھتیجے، بہو، بیٹے سبھی رشتےدار موجود تھے۔ جب زیادہ بیمار ہوئیں، تو اَپنے بھائیوں سے کہنے لگیں ’’مجھے میری بہن کے پاس سرسہ پہنچا دو۔ وہی میری خدمت کرے گی۔‘‘ چنانچہ وہ اَمّاں کے پاس آ گئیں۔ اُن کی بیماری اور ناتوانی اتنی بڑھ گئی کہ بول و براز بھی بستر پر کرنے لگیں۔ امّاں جی اپنے ہاتھ سے نجاست صاف کرتیں اور اُن کے کپڑے اور بستر بدلتیں۔ تقریباً دو ماہ تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ آخر ایک دن اُن کا بیٹا حصار سے آیا اور اُن کی مدہوشی کے عالم میں اُنہیں ساتھ لے گیا جہاں اگلے دن اُن کا انتقال ہو گیا۔امّاں جی کو جب اُن کے انتقال کی خبر ملی، تو فرمایا ’’اللّٰہ کا شکر ہے میری بہن نے بیٹے کے گھر میں دم دیا۔ اگر میرے پاس ایسی ویسی بات ہو جاتی، تو معاشرے میں اُن کے بیٹے کی ناک کٹ جاتی۔‘‘ خالہ حکیمن کی ایک امانت امّاں جی کے پاس تھی۔ وہ ایک مکان تھا جو اَمّاں نے فروخت کر کے اُن کی وصیت کے مطابق رقم کا آدھا حصّہ اُن کے بیٹے اور آدھا اُن کے پوتے کو دیا۔ اِس سے امّاں جی کی بےلوثی، بےغرضی اور دُوسروں کی عزت قائم رکھنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔سرسہ میں ۱۹۳۱ء سے ۱۹۴۷ء تک ہمارے گھر میں ایک ہی خاکروب نے کام کیا۔ سب بہن بھائی اُسی کے سامنے بچپن سے جوانی کی عمر کو پہنچے۔ ہم اُنہیں امّاں گھوٹکی کہتے تھے۔ وہ اَمّاں جی کو بہن کہہ کر پکارتی اور اَمّاں جی بھی اُسے بہن ہی کہتیں۔ وہ ذات کی چوہڑی تھی مگر بنیادی انسانی اخلاق کی خوبیوں سے آراستہ۔ امّاں گھوٹکی گھروں کے کام سے فارغ ہو کر دوپہر کے وقت والدہ کے پاس آ جاتی۔ وہ اُسے قریب بٹھا لیتیں، گرم گرم روٹیاں پکا کر دیتی جاتیں یہاں تک کہ وہ سیر ہو جاتی اور بےشمار دُعائیں دیتی ہوئی گھر کا رُخ کرتی۔ فروری ۱۹۴۶ء میں امّاں گھوٹکی سخت بیمار ہو گئی اور اُس کی بہو گھروں میں کام کرنے لگی۔امّاں جی نے برادر حافظ افروغ حسن سے فرمایا ’’میری بہن بیمار ہے جس کی وجہ سے منہ کا ذائقہ بھی خراب ہو گیا ہو گا۔ میرے ہاتھ کے بنے سالن کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کا سالن پسند نہیں کرتی، اِس طرح بھوکی مر جائے گی۔ مغرب کے بعد تم اُسے روز سالن پہنچایا کرو۔‘‘ اُس کا گھر ہمارے گھر سے تقریباً ڈیڑھ میل دور تھا۔ حافظ صاحب روزانہ سالن لے کر جاتے۔ امّاں گھوٹکی جونہی اُنہیں دیکھتی، کِھل جاتی۔ نقاہت اور کمزوری کے باوجود اُٹھ کر بیٹھ جاتی۔ بڑے حوصلے سے باتیں کرتی۔ یوں محسوس ہوتا کہ بیماری کافور ہو چکی اور مسرّت و اِنبساط کی وجہ سے زائل شدہ قوتیں اور طاقتیں بحال ہو گئی ہیں۔ یہ سلسلہ دو ہفتے جاری رہا۔ آخرکار وُہ صحت یاب ہو کر کام پر آنے لگی۔

تازہ ترین