• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدہ صاحبہ کو اَللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل تھا۔ ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے بتاتیں ’’میرا کبھی کوئی کام نہیں رکا۔ زندگی میں جو ضرورت پیش آئی، مولائے کریم نے خزانۂ غیب سے پورا کرنے کے اسباب مہیا فرما دیے۔‘‘ امّاں جی کی بلندہمتی، اعلیٰ حوصلگی اور وَسیع النظری کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مدت گزر جانے کے باوجود مقروض سے قرض کی واپسی کا تقاضا کبھی نہ کرتیں اور اُسے مہلت دیے رکھتیں تاکہ ہاتھ کشادہ ہونے پر وہ خود ہی سہولت کے ساتھ ادا کر دے۔ ناداری، قرض کی واپسی میں حائل ہو جاتی، تو اُس پر کسی قسم کا احسان جتائے بغیر اللّٰہ کی رضا کی خاطر معاف فرما دیتیں۔اِس کا ایک نمایاں نمونہ آزادی کے وقت کیمپوں کی زندگی میں دیکھنے کو ملا۔ جب آس پاس کے محلوں کے مسلمان جانیں بچا کر اچانک ہمارے محلے میں آ گئے اور مختلف گھروں میں پناہ گزین ہوئے۔ اُن میں ہمارے شہر کے راج اور معماروں کا دس افراد پر مشتمل ایک خاندان بھی تھا جو ہمارے گھر آ کر ٹھہر گیا۔ والدہ محترمہ نے کیمپ میں قیام کے دوران اُن کی ہر طرح سے خدمت کی، اپنی خوراک میں شریک کیا اور اُنہیں آرام پہنچانے کی پوری کوشش کی۔

اُسی کیمپ میں والدہ صاحبہ کی شخصیت کا ایک اور پہلو ہمارے سامنے آیا۔ ایک رات شدید بارش کے دوران کیمپ کنارے واقع مسجد کے مینار پر پہرے پر متعین رضاکاروں نے اللّٰہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے خطرے کا اعلان کیا۔ اُس وقت یہ سمجھا گیا کہ شاید بلوائی کیمپ پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ کیمپ کے مکینوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ والدہ نے خوف زدہ ہونے کے بجائے ہم تینوں بھائیوں کے سروں پر حفاظت کی غرض سے اپنے ہاتھ سے دوپٹے باندھے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھما کر اللّٰہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’جاؤ بیٹا! جا کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرو۔‘‘

امّاں جی نے بچوں کی نفسیات پر کتابیں تو نہیں پڑھی تھیں، مگر عملی طور پر اِس میدان میں اُن کا تجربہ نہایت وسیع اور کامیاب تھا۔ بچے کے طبی رجحانات اور ذہنی میلانات کے مطابق برتاؤ کر کے اُسے ہر قسم کی نفسیاتی اُلجھنوں سے بچا کر رکھتیں تاکہ اُس کی نشوونما اور اِرتقا میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بہن بھائیوں میں اعجاز بھائی کو بچپن سے شرارتیں کرنے کا شوق تھا۔ اُن کی شرارتیں گھر کی گہاگہمی اور رَونق میں خاطرخواہ اِضافہ کیے رکھتیں، مگر امّاں جی کو کبھی مشتعل اور مغلوب الغضب نہیں دیکھا۔ فرماتیں ’’شرارتیں کرنا بچوں کا بنیادی اور فطری حق ہے۔ یہ اِس بات کی علامت ہے کہ بچے کا جسم صحت مند، ذہن متحرک، فعال اور زرخیز ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمت و دَانائی اور صبر و تحمل سے اُس کی حرکت پذیر صلاحیتوں اور توانائیوں کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگایا جائے۔‘‘ اسکول جانے والے بچوں کی تعلیمی ضروریات کی فراہمی میں ایک لمحے کی تاخیر بھی گوارا نہ کرتیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر بچے کو اسکول کی ضروریات کی اشیا وقت پر نہ ملیں، تو اُسے اساتذہ اَور ہم مکتبوں کے سامنے خفت و ندامت اُٹھانا پڑتی ہے۔ بچہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی شخصیت مجروح کر بیٹھتا اور بعض دفعہ تعلیم سے بددل ہو کر راہِ فرار اِختیار کر لیتا ہے۔ گھر کی آمدنی مناسب اور اِخراجات وسیع تھے۔ اِس کے باوجود گھر کا نظام کچھ اِس طرح کفایت شعاری، خوش اسلوبی اور منصوبہ بندی سے چلاتیں کہ کبھی تنگی کا احساس نہ ہوتا۔ پیسے کی کمی کو سلیقہ مندی، ہنرمندی اور اَپنے ہاتھ سے محنت و مشقت کر کے پورا کرتیں۔

مَیں بچپن سے ہی کم گو ہونے کے ساتھ ساتھ صبر و قناعت کا پیکر تھا۔ کسی معاملے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا میری عادت میں شامل نہیں تھا۔ مَیں خاموش احتجاج کی روش اختیار کرتا۔ امّاں جی میرے تیور دیکھ کر فوراً میری ذہنی اور قلبی کیفیت بھانپ لیتیں اور معاملات و حالات میری پسند کے مطابق ڈھال دیتیں۔ تربیتِ اولاد کے سلسلے میں اُن کا یہ طرزِ عمل بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اُن کے پاس جو کچھ تھا، سب اولاد کے لیے تھا۔ اُنھوں نے کبھی کوئی چیز ہم سے چھپا کر نہیں رکھی۔ جائز ضرورتوں اور خواہشات کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی اولاد وَفادار اَور اِطاعت گزار رَہی اور اُن کی نگاہیں ہمیشہ ادب و اِحترام سے جھکی رہیں۔

امّاں جی نے اولاد کی پرورش میں ایک اور بات کا خاص خیال رکھا کہ بچپن ہی سے اُنھیں سادہ اَور سخت زندگی گزارنے کا عادی بنایا۔ کھانے اور رَہن سہن میں سادگی کے ساتھ ساتھ جفاکشی کی تربیت نے اُن کی اولاد کو مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ تہجد کے وقت اُٹھتیں، بکریوں کو چارا ڈالتیں، نماز سے فارغ ہو کر چکّی پیستیں، کوئی نہ کوئی بہن کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتی۔ دونوں اِس قدر محنت کرتیں کہ سردی کے موسم میں بھی پسینے سے شرابور ہو جاتیں۔ نمازِ فجر سے فارغ ہو کر بکریوں کا دودھ نکالتیں اور رَات کا جما ہوا دُودھ بلو کر مکھن نکالتیں۔ والد صاحب کو اَور ہمیں رات کی باسی روٹی پر وہی مکھن شکر وغیرہ کے ساتھ ناشتے میں دیا جاتا۔ ساتھ ادھ رِڑھکا دہی پینے کے لیے ملتا۔ اِس کے بعد والدہ محترمہ کھانا پکاتیں جسے ہم اسکول سے تفریح کی چھٹی میں آ کر کھاتے۔

ظہر سے عصر تک کا وقت قیلولے کے لیے مختص تھا۔ عصر سے مغرب تک چرخا کاتتیں اور ساتھ ساتھ بہن بھائیوں کو پاس بٹھا کر قرآن کی تعلیم بھی دیتیں۔ نیز گھر ہی میں چنے یا گندم بھونتیں جو بھوک لگنے پر ہم کھاتے رہتے۔ مغرب کے بعد رات کا مختصر سا کھانا ہوتا۔ نمازِ عشا کے بعد وہ کاتے ہوئے سوت کو ترتیب دینے کے لیے ’’ٹیرتیں‘‘ (دھاگے کو لکڑی کی ایک چرخی کے ساتھ گھما کر مضبوط کرنے کے عمل پر جت جاتیں)۔ اُس سوت سے وہ گھر کی تمام چادریں، کھیس اور دَریاں وغیرہ تیار کرواتیں۔ اُن کا یہ مشغلہ قیامِ پاکستان کے بعد تک جاری رہا۔ یہ اُن کا روز کا معمول تھا۔ اُنھوں نے گھر میں تنور لگا رکھا تھا جس میں وہ خود روٹیاں لگاتیں۔ سرسہ میں اعجاز بھائی اور مَیں جنگل سے خاردار جھاڑیاں کاٹ کر لاتے جو خشک ہونے کے بعد تنور میں استعمال ہوتیں۔

تازہ ترین