سانحہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے 132سے زائد بچوں کی شہادت نے جہاں قوم کے ہر فرد کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، وہاں میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے بچے بھی اس غم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ سانحہ پشاور وہ سانحہ ہے جس کے زخم آج بھی روز اول کی طرح تازہ ہیں۔ یوں تو میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کو سینکڑوں خطوط موصول ہوتے رہتے ہیں جس میں بیمار بچوں نے اپنی آخری خواہشات کا اظہار کیا ہوتا ہے اور ان میں زیادہ تر خواہشیں کسی چیز کا حصول یا کسی کرکٹر اور شوبز شخصیت سے ملاقات کی ہوتی ہیں مگر کبھی کبھار کچھ ایسی منفرد خواہشات بھی سامنے آتی ہیں جنہیں سن کر حیرانی ہوتی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد میک اے وش فائونڈیشن کو خون کے مرض میں مبتلا 17سالہ شعیب اورنگزیب کا ایک خط موصول ہوا جس میں شعیب نے اپنے دل میں چھپی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’اس کی آخری خواہش ہے کہ وہ ایک دن کیلئے پاک فوج کا سپاہی بنے اور فوجی یونیفارم میں ملبوس ہوکر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سلیوٹ کرے۔‘‘
میں جب شعیب سے ملنے اسپتال پہنچا تو اس وقت شعیب کا خون تبدیل کیا جارہا تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ شعیب کی بیماری ایڈوانس اسٹیج پر ہے اور ہر 10 دن بعد اس کا خون تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر میں نے شعیب کے سرہانے بیٹھ کر اس سے میک اے وش کو لکھے گئے خط کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ میری بچپن سے یہ دلی خواہش تھی کہ بڑا ہوکر پاک فوج کا سپاہی بنوں مگر میری بیماری اس راہ میں رکاوٹ اور خواہش حسرت بن کر رہ گئی ہے۔ شعیب نے مجھے مزید بتایا کہ ’’سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد میری یہ خواہش مزید شدت اختیار کرگئی ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ خرابی صحت کے باعث میرا یہ خواب کبھی پورا ہوسکے گا یا نہیں، اگر میک اے وش فائونڈیشن میری خواہش کی تکمیل کردیتا ہے تو میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب شخص تصور کروں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے شعیب کی آنکھوں میں ایک خاص جذبہ اور چمک دیکھی۔ بعد ازاں میک اے وش فائونڈیشن نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ایک خط کے ذریعے شعیب کی منفرد خواہش سے آگاہ کیا۔ اس دوران ادارے کو شعیب کی وقتاً فوقتاً ٹیلیفون کالز موصول ہوتی رہیں جس سے اس کی بے چینی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ کچھ روز بعد شعیب کا جذبہ رنگ لے آیا اور ادارے کو جی ایچ کیو سے اطلاع موصول ہوئی کہ آرمی چیف نے لاعلاج بچے کو ایک دن کیلئے فوجی بنانے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ میں نے یہ خوشخبری جب شعیب کو سنائی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
پروگرام کے مطابق گزشتہ دنوں شعیب کو ملیر چھائونی لے جایا گیا جہاں اس نے 43 آزاد کشمیر رجمنٹ میں رپورٹ کی اور فوجیوں کے بیرکس میں رات گزاری۔ وہ رات بھر اس خوشی میں نہ سوسکا کہ صبح اس کی دیرینہ خواہش پوری ہوگی۔ علی الصبح شعیب کو فوجی یونیفارم پہنایا گیا جو خصوصی طور پر اس کیلئے تیار کیا گیا تھا جس کے بعد آزاد کشمیر رجمنٹ کے کمانڈر کرنل طاہر بشیر نے اس کے کاندھوں پر فوجی بیجز لگائے، اس طرح شعیب کو پاک فوج کا کمسن سپاہی بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا اور بیماری کی وجہ سے کمزور اور ناتواں نظر آنے والا شعیب یونیفارم پہنتے ہی چست و توانا لگنے لگا۔ بعد ازاں کمسن بچے نے اپنے یونٹ کے افسران و سپاہیوں کے ہمراہ قومی پرچم کی کشائی کی جس کے بعد اس نے فوجی جوانوں کے ساتھ نشانہ بازی اور ٹینک میں بیٹھ کر دیگر فوجی مشقوں میں حصہ لیا۔ بعد میں شعیب کو جی او سی ملیر چھائونی میجر جنرل شہزاد نعیم خان سے ملاقات کیلئے ان کے دفتر لے جایا گیا جہاں انہوں نے شعیب کے جذبہ حب الوطنی کو سراہتے ہوئے اسے یونٹ کا نشان پیش کیا۔ اس موقع پر مجھے بتایا گیا کہ چونکہ آج شعیب ایک دن کیلئے فوج کا حصہ ہے، اس لئے آج اگر کوئی ایمرجنسی کی صورتحال پیش آتی ہے تو شعیب کو بھی سپاہی ہونے کے ناطے ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے بھیجا جاسکتا ہے۔ شام کو یونٹ کے فوجی اہلکار و افسران جب شعیب کو رخصت کرنے آئے تو ان کی آنکھیں نمناک اور لبوں پر بچے کی صحت یابی کیلئے دعائیں تھیں۔ فوجی افسران و اہلکار صرف ایک ہی دن میں کمسن سپاہی سے اتنے مانوس اور اس کے جذبہ حب الوطنی سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ اس کی اپنے یونٹ میں ایک دن کیلئے شمولیت پر فخر محسوس کررہے تھے۔
اگلی صبح آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کراچی آمد متوقع تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ جنرل راحیل شریف کی مصروفیات میں کمسن سپاہی سے ملاقات بھی شامل ہے۔ میں جب وقت مقررہ پر شعیب کے ہمراہ کور ہیڈ کوارٹر پہنچا تو وہاں کراچی کی صورتحال کے حوالے سے جنرل راحیل شریف کی وزیراعظم میاں نواز شریف سے اہم میٹنگ جاری تھی جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ اور کور کمانڈر بھی شریک تھے۔ میٹنگ کے فوراً بعد ہمیں جنرل راحیل شریف سے ملاقات کیلئے لے جایا گیا۔ وہ لمحہ بھی بہت یادگار تھا جب فوج کی وردی میں ملبوس ننھے سپاہی نے انتہائی پراعتماد انداز میں پاک فوج کے سپہ سالار کو سلیوٹ کیا جسے دیکھ کر وہاں موجود سینئر فوجی افسران بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ دوران ملاقات جنرل راحیل شریف نے شعیب کے عزم و حوصلے کی تعریف کی اور صحت کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر شعیب نے جب آرمی چیف کو بتایا کہ وہ فوج کا حصہ بن کر اسکول کے بچوں کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتا ہے تو وہاں موجود سینئر فوجی افسران لاعلاج بچے کے جذبہ حب الوطنی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ دوران ملاقات میں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اُن کی والدہ جن کا اس روز سوئم تھا، کی وفات پر دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ میں نے آرمی چیف کو بتایا کہ شعیب چاہتا تو میک اے وش فائونڈیشن سے کسی قیمتی چیز یا کسی کرکٹر اور شوبز شخصیت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کرسکتا تھا مگر فوج کا سپاہی بن کر آپ سے ملنے کی خواہش کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بچے آپ کو اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں، آج ایک طرف جہاں دہشت گرد معصوم بچوں کو خود کش حملوں کیلئے استعمال کررہے ہیں، وہاں دوسری طرف جان لیوا مرض میں مبتلا شعیب جیسے بچے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر میں نے آرمی چیف سے کہا کہ اس وقت قوم کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں انہوں نے اپنی امیدیں آپ سے وابستہ کر رکھی ہیں جس پر جنرل راحیل شریف نے مجھے یقین دلایا کہ وہ قوم کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔
میں نے جب پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کی بنیاد رکھی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ادارے کو شعیب جیسے بچے کی منفرد خواہش کی تکمیل کا اعزاز حاصل ہوگا۔ یہ ادارہ دنیا کے 55ممالک میں پھیلا ہوا ہے مگر پاکستان کے برعکس یورپ اور امریکہ کے بچوں میں فوج میں جانے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ جان لیوا مرض میں مبتلا بچے کی آخری خواہش پوری کرکے جہاں پاک فوج نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو دنیا کی کوئی اور فوج نہیں کرسکتی، وہاں پاکستانی قوم کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے شعیب جیسے بہادر بچے پیدا کئے۔ معصوم بچوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد شاید یہ سمجھتے تھے کہ ان کے مجرمانہ فعل سے مائیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چھوڑ دیں گی یا بچے خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیں گے مگر سانحہ پشاور نے بچوں اور ان کے والدین کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا ہے۔ مسلح افواج میں شامل ہوکر دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کی خواہش صرف شعیب جیسے لاعلاج بچے کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی بچے کی ہے جو دہشت گردوں سے اپنے بھائیوں کی شہادت کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد جب میں ننھے سپاہی کا ہاتھ تھامے کور ہیڈ کوارٹر سے روانہ ہورہا تھا تو اس کے چہرے کی چمک اور ہاتھ کی گرمی میرے اس یقین میں اضافہ کررہی تھی کہ ’’قوم میں جب تک شعیب جیسے بچے موجود ہیں، دہشت گرد اپنے مذموم اور گھنائونے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور بہت جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔‘‘