جون 2013ء کے پہلے ہفتے جناب نوازشریف نے اپنی تیسری کابینہ تشکیل دی۔ الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ(ن) بجا طور پر یہ دعویٰ کرتی رہی تھی کہ ملک کوجو سنگین مسائل درپیش ہیں، اُن کے حل کیلئے اس کی قیادت وژن بھی رکھتی ہے، اس کے پاس ایجنڈا بھی ہے اور عملدرآمد کیلئے اہل اور تجربہ کار افراد کی ٹیم بھی۔ کابینہ کی حلف برداری کے بعد وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ اپنے رفقا کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے۔ اس کیلئے مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا جائے گا اور وزرا کو ایک معینہ مدت (غالباً ہر تین ماہ) کے بعد اپنی اپنی وزارت کی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا ہوگی کہ طے شدہ اہداف کی طرف کتنی پیش رفت ہوئی ۔ ہم برطانوی جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اپنے ہاں شیڈو کیبنٹ ٹائپ کسی انتظام کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ جمہوریت میں اپوزیشن کو’’گورنمنٹ اِن ویٹنگ ‘‘ کہا جاتا ہے جس کیلئے اس نے پورا ہوم ورک کیا ہوتا ہے چنانچہ ’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘کے مصداق اس کی کابینہ پہلے ہی روز سرگرمِ عمل ہوجاتی ہے۔
1985کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی دوبار برسرِ اقتدار آئی(دونوں بار ادھوری مدت کیلئے ) اور ہر دو بار اس کے بعد آنے والوںکا کہنا تھا کہ وہ اِن کیلئے مسائل کا کوہِ گراں چھوڑ گئی ہے۔ 2008سے 2013تک، جناب زرداری والی پیپلزپارٹی کو اپنے پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملا اوربدقسمتی سے اسے ناقدین نے پیپلزپارٹی کی چاروں حکومتوں میں بدترین قرار دیا (مئی 2013کے الیکشن میں اس نے اس کا خمیازہ بھی بھگتا)۔ بدحال معیشت ، کرپشن، توانائی کا بحران، بیڈ گورننس اور ان سب سے سنگین تر دہشت گردی اور کراچی میں بدامنی کے مسائل تھے۔
آئی پی پیز کو سرکلر ڈیٹ کے تقریباً 500ارب کی ادائیگی کے ذریعے توانائی کے بحران کو کم کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے اثرات نظر بھی آنے لگے۔ کراچی بدامنی کے خاتمے کیلئے وزیراعظم، قصۂ زمین برسرِ زمین کے مصداق خود شہرِ قائد میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھے۔ اس دور کی عسکری قیادت (جنرل کیانی) ، آئی ایس آئی اور سندھ رینجرز کے سربراہان بھی شریک ِ مشاورت ہوئے۔ سبھی اسٹیک ہولڈرز کے اتفاقِ رائے کے ساتھ آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اس کے کپتان قرار پائے۔ ادھر اتمامِ حجت کیلئے وزیرستان والے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے خود جنرل کیانی بھی تحفظات رکھتے تھے۔ (جناب جنرل کے اس تذبذب کا ذکر ، اُس دور کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس بھی ایک انٹرویو میں کرچکے )۔بلوچستان میں ’’ناراض بلوچ‘‘ دردِ سر بنے ہوئے تھے(اس کا ’’کریڈٹ‘‘ ڈکٹیٹر مشرف کے سوا کسے جاتا ہے جو باقاعدہ ٹارگٹ والی پوزیشن بناکر دھمکیاں دیتا تھا’’ یہ 70s نہیں(جب تم غاروں میں چھپ جاتے تھے)اب وہاں سے ماروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا‘‘ اور پھر بزرگ بلوچ لیڈر مار دیا گیا، جو اپنے مطالبات کے سلسلے میں سخت سودے باز(ہارڈ بارگینر) تو تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کبھی تصادم اوروفاقِ پاکستان سے بغاوت کی حدتک نہیں گیا تھا۔ اب ڈکٹیٹر مشرف کا تکبر بوڑھے سردار کی انا کیلئے چیلنج بن گیا تھا لیکن اس نے مفاہمت کا دروازہ کھلا رکھا۔ چوہدری شجاعت اور جناب مشاہد حسین سے آج بھی اس کی گواہی لی جاسکتی ہے۔
وفاقِ پاکستان کے حامی بزرگ بلوچ لیڈر کے قتل نے وفاقِ پاکستان سے ناراض بلوچوں میں اشتعال کی چنگاریاں بھردیں جن کی سرپرستی کیلئے ہمارے’’مہربان‘‘ پڑوسی موجود تھے۔ مئی 2013ءمیں وزیراعظم نوازشریف کی مسلم لیگ بلوچستان میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی، یہاں حکومت سازی کا پہلا حق اسی کا تھالیکن وزیراعظم اپنے جماعتی مفادات سے اوپر اُٹھے اور انتخابات میں تیسری پوزیشن والی بلوچ قوم پرست جماعت کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا۔معاہدے کے مطابق بلوچستان میں امن وامان اور ناراض بلوچوں سے مفاہمت کیلئے اپنے حصے کا سفر طے کر کے وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اُٹھ گئے، منزل کی جانب باقیماندہ سفر کی ذمہ داری اب مسلم لیگ(ن) کے جناب ثناءللہ زہری کے سر ہے۔ وزیراعظم نے فہم و تدبر سے کام لیتے ہوئے، خیبر پختونخوا میں عمران خان کی پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ توانائی بحران کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ نامکمل اور زیرالتوا منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبوں کا آغاز ہورہا تھا۔چائنا پاک اکنامک کاریڈور جیسے گیم چینجر کا افتتاح ہونے کو تھا کہ دھرنا نے سراُٹھا لیاجو16دسمبر2014کے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ساتھ انجام کو پہنچی۔ ادھر 15جون سے جاری ضربِ عضب کو تیز تر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان اور 21ویں ترمیم کے ذریعے کئے گئے غیر معمولی اقدامات اسی کا شاخسانہ تھے۔ کراچی آپریشن کا آغاز بھی اتفاقِ رائے سے ہوا تھا لیکن اس حوالے سے پہلے ایم کیو ایم کو شکایات پیدا ہوئیں اور اب سندھ حکومت اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے جسے آپریشن کرنے والے اِدارے سے مبینہ طور پر (طے شدہ حدود سے تجاوز کی) شکایات ہیں۔ وفاق اور سندھ میں کشیدگی بھی ڈھکی چھپی نہیں، لیکن دونوں طرف اصلاحِ احوال کی خواہش موجود ہے چنانچہ’’کشیدگی‘‘ ایک حد سے آگے نہیں بڑھی۔ محترمہ کی 8ویں برسی پر گرماگرم تقاریر کے بعد وزیراعلیٰ خرابیٔ طبع کے باوجود وزیراعظم کی کراچی آمد پر ان کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پہنچے اور اس روز کی باقی ماندہ مصروفیات میں عدم شرکت کی اجازت چاہی۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ملاقات بھی اطمینان بخش رہی۔ موجودہ حکومت کے ڈھائی سال باقی ہیں۔ جناب وزیراعظم کے بقول آدھی مدت گزرگئی اور احساس بھی نہیں ہوا۔ اب باقی ماندہ آدھی مدت میں وزیراعظم لیٹ نکالنا چاہتے ہیں(جس طرح لیٹ ہوجانے والی ٹرین کاڈرائیور تیز رفتاری کے ذریعے لیٹ نکالتاہے)۔
ایسے میں بعض حلقوں کی طرف سے ’’گڈگورننس‘‘ کا سوال بھی اُٹھا دیا گیا۔ میڈیا میں موجود حکومت کے بعض ’’مہربانوں ‘‘ کے ہاتھ پروپیگنڈے کا نیا ہتھیار آگیا تھا۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی مہینوں میں ناقدین کا یہ احساس کچھ ایسا بے جا نہ تھا کہ گزشتہ دونوں حکومت کے برعکس اس بار میاں صاحب سست نظر آتے ہیں، ان میں گزشتہ والی تیزرفتاری اور جوشِ عمل نظر نہیں آتا۔ پارلیمنٹ میں کم کم آنے پر بھی تنقید ہوئی، پنجاب میں خادمِ پنجاب کے ون مین شو اسٹائل پر بھی انگلیاں اُٹھتی رہتی ہیں لیکن وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت پر کرپشن کا الزام؟ آزاد میڈیا کے دور میں کسی کی زبان تو پکڑی نہیں جاسکتی لیکن اس کیلئے کوئی ثبوت، کوئی شواہد ؟ ٹرانسپیرنسی ، گڈگورننس کی خشتِ اوّل ہے۔ وفاقی وزارتوں میں ٹرانسپیرنسی کے تقاضوں کا کس طرح اہتمام کیا جاتا ہے، اس بدھ کو جناب پرویز رشید کی وزارتِ اطلاعات کے زیراہتمام اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد اسی سے آگاہی کیلئے تھاجس میں ملک بھر سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نمائندہ اور نمایاں شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا جس میں ’’من وتو‘‘ کی کوئی تمیز نہ تھی۔ انرجی (واٹر اینڈ پاور، پٹرولیم اور قدرتی وسائل) ریلوے سمیت کمیو نی کشن اور انفراسٹرکچر اورپبلک سیکٹراِداروں کی نجکاری جیسے معاملات میں شفافیت کے حوالے سے ان وزارتوں کے ذمہ داران (سیکرٹری حضرات)نے اپنا اپنا کیس بڑے مؤثر اور مدلل انداز میں پیش کیا۔ وزارتِ اطلاعات نے اس موقع پر ایک کتابچہ بھی شائع کیا تھاجس میں شفافیت کے حوالے سے اُٹھنے والے جملہ اعتراضات کا جواب موجود تھا۔ سیمینار میں کچھ نئے سوالات بھی ہوئے۔ پرائیوٹائزیشن کمیشن کے سربراہـ(وزیرمملکت کے منصب کے حامل) زبیر عمر کا کہنا تھا، مسلم لیگ(ن) کے علاوہ پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے منشور میں بھی پرائیوٹائزیشن موجود ہے۔ پھر ان کی طرف سے قومی اِداروں کی نجکاری کی مخالفت اور مزاحمت کیوں؟ اس میں اگر کہیں ٹرانسپیرنسی سے انحراف کیا جارہا ہے، تو اسکی نشاندہی ضرورکی جائے۔ جناب اسحاق ڈار کا کہنا تھا، اقتصادیات سے متعلق مختلف عالمی فورمز پر غیر ملکی ماہرین سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ معیشت کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کے رویے پر حیرانی کا اظہارکرتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ دلچسپ بات بھی بتائی کہ اسپیکر ایازصادق نے ان کے ایک کولیگ کی شکایت انہیں پہنچائی کہ ڈار صاحب مختلف اسکیموں کیلئے رقم کی منظوری میں یوں’’کنجوسی‘‘ کرتے ہیں جیسے یہ رقم اپنی جیب سے دینی ہو، ڈار صاحب کا کہنا تھا، اپنی جیب سے دینے کے معاملے میں وہ ایسی کنجوسی نہیں کرتے۔ یہاں معاملہ قوم کی امانت اور ٹیکس پیئر کے پیسے کا ہوتا ہے جس میں کنجوسی یا احتیاط لازم ہے۔