• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں فحش نگار نہیں کہانی نگار ہوں۔ منٹو
منٹو نے ٹھنڈا گوشت کے دفاع میں مشہور جملہ کہا تھا کہ میری کہانیاں صحت مند اور عام لوگوں کیلئے ہیں، ان کیلئے نہیں جو معصوم اور پوتر چیزوں میں سے جنس ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ منٹو نے منافقت نہیں کی اور معاشرے کو آئینہ دکھایا۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ کوئی سی بھی تفریح گناہ ہے جسے روکنا چاہئے۔ ان کے نزدیک کسی بھی طرح کی تفریح مثلاً فلمیں، ڈرامے اور شوز گناہ اور فحاشی ہوتے ہیں جن میں مرد و زون کا اختلاط ہوتا ہے۔ نیز گانے سننا بھی شیطانی کام ہے۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ہمارا میڈیا سماجی برائیوں کو اجاگر کرے کیونکہ اس سے معاشرے کی اخلاقیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ وہ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ لالچ کی وجہ سے نہیں قتل ہوتے۔ عورتوں کو غیرت کے نام پر نہیں مارا جاتا، بچوں سے زیادتیاں نہیں ہوتیں۔ غیر قانونی تقرریاں نہیں ہوتیں۔ وزرائے اعظم پر کرپشن کا الزام نہیں ہوتا۔ ہر چیز ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔
ان کے نزدیک حقیقت سامنے لانے سے لوگ غلط قسم کی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہ اخلاقی پولیس والے سمجھتے ہیں کہ انکے پاس یہ اختیار ہے کہ عوام کیا دیکھیں اور کیا سنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ احمق اور سادہ ہیں اور انہیں اپنے اچھے برے کی سمجھ نہیں۔ بدترین مثال ضیاء الحق کی سنسر شپ ہے جنہوں نے اپنی خواہش کے نفاذ کیلئے بندوق استعمال کی، ہماری ثقافت اور برداشت کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا۔
انٹرنیٹ کے دور میں ایسے افراد کے پاس پاکستان کی تفریحی دنیا میں اپنی مرضی کو نافذ کرنے کا اختیار یا مینڈیٹ حاصل نہیں، لیکن وہ ایسا کرنے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا راستہ فحاشی کے تصور کو بروئے کار لانا ہے۔ منٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جن افراد نے منٹو کیخلاف فتوے جاری کئے وہ اس کی کہانیوں کی سچائی کو نہیں جھٹلا سکے۔ اسے خاموش کرانے کا طریقہ اس کی کتابوں پر پابندی لگانا تھا۔
اس لئے ہر چیز کو غیر اخلاقی قرار دے کر وہ ادب، ڈرامہ، سینما اور سوشل میڈیا کو سنسر کرنا چاہتے ہیں۔ تفریح کا مقصد محض تفریح ہوتا ہے، مزے لینا، ہنسنا، رونا، تلخ حقائق سے راہ فرار اختیار کرنا۔ ہر کوئی نور جہاں اور مہدی حسن کے گانوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ فن آفاقی ہے اور پوری انسانیت کیلئے ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ٹی وی اور سینما پر جو جی چاہے دکھادیا جائے۔ تفریح کا مطلب فحاشی پھیلانے کی آزادی نہیں۔ توازن ہونا چاہئے۔ تفریح کی آڑ میں بعض چیزیں ناقابل قبول ہیں مثلا کھلا جنسی مواد وغیرہ۔
آئین کے آرٹیکل 19اور 19A، جس میں تمام شہریوں کو آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کی ضمانت دی گئی ہے، کے تحت یہ حقوق جائز قانونی پابندیوں سے مشروط ہیں۔ پاکستان کے گہرے روایت پسند معاشرے میں ان حقوق و پابندیوں کے درمیان توازن کا چیلنج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ معاشرے میں یہ توازن کیسے قائم ہو؟
اول۔ کسی ایک گروہ کو اخلاقیات کی اپنی تشریح کرنے اور دوسروں پر نافذ کرنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے۔ مختلف گروہوں کے نزدیک بے حیائی کے مختلف معنی ہیں۔ معاشرہ ترقی کررہا ہے تو وہ فن کی مختلف اقسام میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ آج جو بات بے حیائی اور فحاشی ہے، ہوسکتا ہے کل کلاں وہ فحاشی نہ رہے۔ کیا چیز نامناسب ہے یہ متفرق رائے پر مبنی ہے۔ کیا چیز فحاشی ہے، یہ تو اور بھی زیادہ اختلافی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹی وی ناچنا گانا غیر اخلاقی ہے۔ بعض کہیں گے کہ عورتوں کے صحت کے مسائل پر گفتگو نامناسب ہے۔
لیکن کیا پابندیاں جائز ہیں اس کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے، کسی خاص طبقے کو نہیں۔ صرف قانون ساز اسمبلی کو اختیار ہونا چاہئے کہ کیا دیکھا جاسکتا ہے اور کیا نہیں۔ آرٹیکل 19کے مطابق صرف قانون کے تحت جائز پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ یہ قوانین بناتے ہوئے پارلیمنٹ کو بھی چاہئے کہ تفریح پر پابندیاں جائز، معقول اور درست مقصد کی اہمیت کے حساب سے ہوں۔
دوم، سنسر شپ سے بچنے کیلئے میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا چیز نشر کرنا چاہئے۔ اپنی نگرانی آپ نہ کرنے پر ہی نگراں ادارہ فرداً فرداً ایکشن لے سکتا ہے۔پاکستان میں پارلیمنٹ نے پیمرا کو میڈیا کے مواد کی نگرانی کا اختیار دیا ہے۔ پیمرا اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کا ضابطہ اخلاق 2015ءپر اتفاق ہے۔ یہ قوانین درست توازن قائم کرتے ہیں۔ فحش مواد کو نشر ہونے سے روکنے کیلئے ہرچینل کو اپنی نشریات کو اندرونی نگراں کمیٹیوں کے ذریعے مانیٹر کرنا چاہئے۔ اس سے چینل کو عوام کی مرضی کے مطابق تفریحی مواد نشر کرنے کی مناسب آزادی ملے گی۔ پیمرا کا کام سنسر کرنا نہیں نگرانی کرنا ہے۔ اسے عوامی شکایات کا جائزہ لے کر علیحدہ کارروائی کا حق حاصل ہے۔
ضابطہ اخلاق کی منظوری کے بعد 13ماہ سے ٹی وی چینلز 762120گھنٹوں کی نشریات کرچکے ہیں اور پیمرا نے صرف تین بار جرمانے لگائے جس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی میڈیا توازن قائم کرتے ہوئے ذمہ داری سے کام کررہا ہے۔
لیکن اب پیمرا نے قانون کیخلاف آمرانہ پابندیاں لگانی شروع کردی ہیں جس سے ضیا دور کی سنسر شپ کی یاد تازہ ہوتی ہے، مثلا خواتین کس طرح کا لباس پہنیں اور ایسے پروگرامز نشر نہ کئے جائیں جن میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے انتہائی قریب بیٹھے ہوں وغیرہ۔
پیمرا کے حالیہ احکامات شاید عدالت عالیہ میں چلنے والے کیس کے فیصلہ کا نتیجہ ہیں جس میں پاکستان میں تفریح کے تصور پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
رومی نے کیا خوب کہا تھا کہ خوش ہونے کیلئے خدا کا شکر ادا کرو۔ صوفی کی یہ بات روح کو خوش کرتی ہے۔ لہٰذا تفریح کو ختم کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کریں ورنہ ترقی و نظریات کے آزاد بہاؤ کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔
(مضمون نگار سپریم کورٹ کے وکیل اور 2015-16ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر رہے ہیں)



.
تازہ ترین