• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورس کے ہاتھی ...طلوع…ارشاد احمد عارف

ایسٹیبلشمنٹ تو معلوم نہیں عمران خان اور تحریک انصاف کی درپردہ مدد اور سرپرستی کر رہی ہے یا نہیں؟ کر رہی ہے تو کیوں؟ لیکن چودھری نثار علی خاں اور خواجہ آصف نے یہ شور مچا کر اپنے ارکان اسمبلی، مستقبل کے انتخابی امیدواروں اور کارکنوں کو مایوس اور پریشان کر دیا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی عمران خان کی مدد کر رہی ہے اور درجنوں کے حساب سے جو سیاسی لیڈر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں یہ ”مہربانوں“ کے اشارہ ابرو کا کرشمہ ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب ”چاہ یوسف سے صدا“ میں 1997ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کی وجوہات کا ذکر کیا ہے۔ ”نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (این ڈی آئی) کی کنٹری منیجر امریکی خاتون مس گیلشن فلائس کو محترمہ بے نظر بھٹو کی موجودگی میں انتخابی تجزیہ پیش کرتے ہوئے میں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے اپنے صدر کے ہاتھوں برطرفی پر عوام کا یہ تاثر تھا کہ پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں نہیں آئے گی“کتاب میں ایک اور جگہ 1990ء کی انتخابی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے گیلانی صاحب نے لکھا ہے:

”1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے عام انتخابات کا اعلان کر دیا اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ بے نظیر بھٹو کو ایسٹیبلشمنٹ اقتدار میں نہیں آنے دے گی“
1970ء کے انتخابات کے دوران پنجاب کے جن جاگیرداروں نے بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کی سرتوڑ مخالفت کی بلکہ مبینہ طور پر ”قاتلانہ حملہ بھی کرایا ان میں مخدوم صادق حسین قریشی بھی شامل تھے مگر جب صادق حسین قریشی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کے علاوہ قریبی ساتھیوں، ارکان اسمبلی نے اس فیصلے کی مخالفت کی تو بھٹو صاحب نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کیا کہ قریشی ایسٹیبلشمنٹ سے گہرے روابط کی شہرت رکھتے ہیں جبکہ میرے مخالفین یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں ترقی پسندانہ منشور کی وجہ سے ایسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے خلاف ہے قریشی کی شرکت سے یہ تاثر دور ہو گا اور ہماری سیاسی پوزیشن بہتر ہو گی۔
خود میاں نواز شریف کے حامی کچھ عرصہ پہلے تک یہ دعویٰ کرتے تھے کہ 1993ء کے انتخابات میں یہ پروپیگنڈہ کر کے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی ناکامی کی راہ ہموار کی گئی کہ جن مقتدر حلقوں نے حکومت ختم کی ہے وہ انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع کیوں فراہم کریں گے اس لئے ووٹر نے اپنا ووٹ ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا مگر اب معلوم نہیں کس لقمان حکیم حکمت کے بادشاہ نے میاں صاحب کے حواریوں کو یہ نسخہ کیمیا سمجھایا ہے کہ پاکستان کے عوام ایسٹیبلشمنٹ سے سخت نفرت کرتے ہیں وہ فوج اور آئی ایس آئی کا نام سنتے ہی بدک پڑتے ہیں اس لئے عمران خان اور تحریک انصاف کو ایسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ثابت کر کے سابق اور موجودہ ارکان اسمبلی، سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کو اس سے متنفر کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کو سیاست میں پندرہ سالہ ابلہ پائی کے بعد جو عوامی پذیرائی مل رہی ہے وہ محض اس کی محنت، ریاضت اور قومی و بین الاقوامی ایشوز پر عوام کے جذبات سے ہم آہنگ موقف کے سبب نہیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی بے عملی، عوامی مسائل سے بے نیازی اور قومی جذبات و احساسات سے بے وفائی کے تاثر نے بھی قیامتیں ڈھائی ہیں۔ میاں نواز شریف نے جمہوری نظام کے تسلسل اور بری بھلی منتخب حکومت کو زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرنے کی خاطر جس احتیاط پسندی کا مظاہرہ کیا اس نے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا، فرینڈلی اپوزیشن کے واقعاتی تصور نے سیاسی خلا پیدا کیا اور اس خلا کو عمران خان پُر کرنے کی کوشش کرتے رہے میاں صاحب عملاً غیر فعال رہے اور عوامی رابطے کے مروجہ طریقوں سے لاتعلق، شائد دہشت گردی کا خطرہ ایک بہادر شخص کے پاؤں کی زنجیر بنا رہا۔ عوام بالخصوص پڑھے لکھے نوجوان آہستہ آہستہ یہ سمجھنے لگے کہ زرداری اور نواز شریف اصل میں دونوں ایک ہیں، اس ضمن میں بعض بین الاقوامی معاہدوں اور یقین دہانیوں کا تذکرہ بھی ہوتا رہا۔
اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ دونوں بڑی جماعتوں نے 1970ء اور 1980ء کی سیاست کے فرسودہ طور طریقوں پر انحصار کیا اور نوجوان نسل کو قریب لانے، ان کے احساسات و جذبات معلوم کرنے اور کرپشن، اقربا پروری، دھڑے بندی، علاقائی صوبائی تعصبات اور ذات برادری کے فرسودہ، بدبودار اور ازکار رفتہ کلچر کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کسی سطح پر نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں میں عہدوں کی بندر بانٹ، ٹکٹوں کی تقسیم اور فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت خاندانی معاونت اور ترجیحات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی رہی اور چند خاندان سیاست، معیشت اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو گئے۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ قوم بانجھ ہے۔ صرف چند خاندانوں کے بچے بچیاں ہی جماعتی حکومتی عہدے سنبھالنے کے قابل ہیں یہی ارکان اسمبلی، انہی کے لئے وزارتیں، مشاورتیں اور جماعتی مناصب اور وہی جانشینی کے حقدار، مصر، لیبیا اور تیونس جیسے طویل امریت کے مارے ملک میں موروثی اور خاندانی طرز حکومت ختم مگر پاکستان میں جمہوریت کے علمبردار خانوادے، جانشینی کے اس غیر اسلامی، غیر انسانی اور غیر جمہوری طریقہ کار کو دوام بخشنے کے لئے کوشاں ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل ان بڑی جماعتوں سے نالاں ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے لیکن ہمارے دانا و بینا سیاستدان اور ان کے خوشامدی حواری داخلی کمزوریوں اور ذاتی و جماعتی خامیوں پر قابو پانے کے بجائے ساری صورتحال کا ذمہ دار ایسٹیبلشمنٹ کو قرار دے کر پورس کے ہاتھی کا کردار ادا کر رہے ہیں جس نے اپنی صفوں میں بھگڈر مچا دی تھی۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو۔ عمران خان خوش قسمت ہے کہ اسے دشمن بھی کودن نصیب ہوئے۔
تازہ ترین