شرم اور افسوس سے میرا سر جھک گیا۔ میں نے ایک اہم سوال کا جواب حاصل کر لیا تھا اور آنکھیں بند کر کے سوچنے لگا کہ کاش وہ ہیرو غلط وقت پر شادی نہ کرتا تو تاریخ میں ہیرو سے زیرو نہ بنتا۔ اس شخص کا نام میجر خورشید انور تھا۔ بانی پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح کے پہلے سینئر ملٹری سیکریٹری میجر جنرل محمد اکبر خان کی کتاب ’’میری آخری منزل‘‘ میں بار بار خورشید انور کا ذکر آتا ہے۔ یہ صاحب اکتوبر 1947ء میں اس قبائلی لشکر کی قیادت کر رہے تھے جو مظفر آباد کو ڈوگرہ فوج سے آزاد کروانے کے بعد سری نگر کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لشکر بارہ مولا میں غیر ضروری طور پر رُک گیا اور اس دوران بھارتی فوج سری نگر پہنچ گئی۔ میجر جنرل محمد اکبر خان 1947ء میں برٹش انڈین آرمی کے سب سے سینئر مسلمان افسر تھے اور قائداعظمؒ کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن ہر قیمت پر جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتا تھا اور پاکستان کی سول و ملٹری قیادت میں شامل اہم لوگ غیر اعلانیہ طور پر اس کی مدد کر رہے تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قائداعظمؒ سے مشورہ کئے بغیر کشمیر کی آزادی کے لئے ایک منصوبہ بنانے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں راولپنڈی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر خزانہ غلام محمد، میاں افتخار الدین، زمان کیانی، سردار شوکت حیات، کرنل اکبر خان اور خورشید انور شامل ہوئے۔ اجلاس کے بعد ان سب نے اپنے اپنے منصوبے اور حکمت عملی بنا لی۔ اصل منصوبے کا نگراں سردار شوکت حیات کو بنایا گیا جو آزاد کشمیر کی فوج کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن خورشید انور قبائلی لشکر کے ہمراہ بارہ مولا اور اوڑی تک جا پہنچا۔ میجر جنرل اکبر خان نے انکشاف کیا کہ 21؍ اکتوبر 1947ء کو اس قبائلی لشکر سے متعلق جی ایچ کیو راولپنڈی سے دہلی کے آرمی ہیڈ کوارٹر کو تار کے ذریعے اطلاع دے دی گئی۔ یہ اطلاع جنرل گریسی نے مائونٹ بیٹن کو بھیجی اور پھر مائونٹ بیٹن نے بھارتی فوج کو سری نگر پہنچانے کا اہتمام کیا۔ میجر جنرل اکبر خان نے لکھا ہے کہ وزارت دفاع کا کنٹرول اسکندر مرزا کے پاس تھا اور پاکستانی وزارت دفاع قائداعظمؒ کے بجائے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ وفا دار تھی پھر نجانے کیا ہوا کہ خورشید انور قبائلی لشکر کو چھوڑ کر واپس پشاور چلا آیا۔ میجر جنرل اکبر خان نے یہ تو لکھا کہ خورشید انور نے کرنل اکبر خان کی کئی باتیں نہیں مانیں لیکن مزید تفصیل نہیں لکھی۔ ان صاحب سے متعلق مزید تفصیل مجھے سردار شوکت حیات کی کتاب ’’گم گشتہ قوم‘‘ میں ملی۔ خورشید انور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کا سربراہ تھا اور اس نے اپنے نام کے ساتھ میجر بھی لگا لیا تھا۔ وزیر خزانہ غلام محمد نے اپنے اس ککے زئی رشتہ دار کو زبردستی کشمیر آپریشن میں شامل کرایا۔
سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ ہم نے جموں و کشمیر سے دو اطراف سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ایک طرف سے کٹھوعہ روڈ پر قبضہ کرنا تھا دوسری طرف مظفر آباد کے راستے سرینگر جانا تھا۔ منصوبے میں قبائلی لشکر شامل نہ تھا تاکہ رازداری قائم رہے۔ یہ حملہ ستمبر 1947ء میں کیا جانا تھا لیکن اچانک خورشید انور غائب ہو گیا۔ اس نے پشاور میں ایک مسلم لیگی خاتون سے شادی کر لی اور ہنی مون کے لئے غائب ہو گیا۔ اس شادی کے باعث حملے میں تاخیر ہوئی اور جب حملہ شروع ہوا تو خورشید انور ہائی کمان کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبائلی لشکر کو لیکر آ گیا۔ بارہ مولا میں قبائلیوں نے خورشید انور کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا جس پر وہ پشاور واپس چلا آیا اور بھارت کو اپنی فوج سرینگر پہنچانے کا موقع مل گیا۔ اگر یہ حملہ اکتوبر کی بجائے ستمبر میں کیا جاتا تو جموں اور سرینگر آزاد ہو چکے ہوتے لیکن خورشید انور نے اپنی شادی زیادہ ضروری سمجھی اور اس شادی کے باعث جموں و کشمیر پر حملے میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی۔ سرینگر پر بھارتی فوج کے قبضے کے باوجود مجاہدین کے حوصلے بلند تھے۔ نومبر 1947ء میں گلاب خان محسود کی قیادت میں قبائلی لشکر نے اوڑی میں بھارتی فوج سے بھاری مقدار میں اسلحہ چھین لیا لیکن دوسری طرف پاکستانی فوج کے انگریز افسران نے سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا کی مدد سے وزیراعظم لیاقت علی خان کو سیز فائر پر راضی کر لیا اور یوں جموں و کشمیر کی مکمل آزادی کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
ہر سال جب بھی پانچ فروری کو ہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے نام پر چھٹی کر کے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں تو ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا گھر بیٹھ کر یہ چھٹی منانا اخلاقی طور پر جائز ہے؟ کیا آپ بھی کشمیریوں کے ساتھ وہی نہیں کر رہے جو پاکستان کے حکمراںطبقے نے بار بار کشمیریوں کے ساتھ کیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی غلطیوں سے کم از کم پانچ دفعہ جموں و کشمیر کی آزادی کا موقع ضائع کیا۔ یہ پہلا موقع 1947ء میں خورشید انور کی بے موقع شادی کے باعث ضائع ہوا۔ دوسرا موقع 1962ء میں آیا جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی۔ سابق صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1962ء کی ایک شب ڈھائی بجے مجھے ایک چینی باشندے نے جگایا اور بتایا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے پاکستان موقع سے فائدہ اٹھا کر کشمیر آزاد کرا سکتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب بھاگم بھاگ ایوان صدر پہنچے اور جنرل ایوب خان کو جگا کر چین کا پیغام پہنچایا لیکن صدر صاحب نے کہا کہ جائو جا کر آرام سے سو جائو۔ شہاب صاحب کے خیال میں صدر ایوب نے کشمیر آزاد کرانے کا سنہری موقع کھو دیا۔ ایسا ہی مشورہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایوب خان کو دیا تھا لیکن ایوب خان چین کے اتحادی بن کر امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ تیسرا موقع 1965ء میں آیا۔ جنرل ایوب خان نے صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی تھی اور بچہ بچہ انہیں گالیاں دے رہا تھا۔ اپنی عزت بحال کرنے کے لئے انہیں فاتح کشمیر بننے کا خیال آیا اور انہوں نے مئی 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کی منظوری دی جس کے تحت ریگولر فورسز کو مجاہدین کے روپ میں کشمیر بھیجا گیا۔ بھارت نے جواب میں انٹرنیشنل بارڈر پر حملہ کر دیا اور جنگ شروع ہو گئی۔ جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری تھا۔ پاکستانی فوج اکھنور کے قریب پہنچ گئی۔ چین، ایران اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک پاکستان کی حمایت کر رہے تھے لیکن ایوب خان امریکہ کے دبائو میں آ گئے اور انہوں نے سیز فائر کر دیا۔ بعد ازاں اس جیتی ہوئی جنگ کو معاہدہ تاشقند میں ہارنے کی کوشش ہوئی لیکن وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت سے باہر آ گئے اور یوں ایوب خان کے خلاف وہ تحریک شروع ہوئی جو فوجی آمر کے زوال کا باعث بنی۔
جموں و کشمیر کی آزادی کا چوتھا موقع 1995ءاور 1996 ءمیں آیا جب تحریک آزادی کے باعث مقبوضہ ریاست میں سرکاری مشینری مفلوج ہو چکی تھی اور مجاہدین سرینگر میں ناردرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں تھے لیکن پاکستان میں وزیراعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی محاذ آرائی اور کچھ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کے باعث کشمیر سے توجہ ہٹی رہی اور یہ موقع بھی ضائع ہو گیا۔ 1999ء میں کارگل آپریشن ہوا۔ غلط منصوبہ بندی کے باعث اس آپریشن نے فائدے کی بجائے کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچایا۔ اگر سب ریاستی ادارے مل کر یہ منصوبہ بناتے تو کامیابی کا امکان روشن تھا۔ اس آپریشن کی ناکامی کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 2007ء میں وہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیر کو مذاکرات کی میز پر ہارنے کے لئے تیار ہو چکے تھے لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ مشرف کشمیر پر سرنڈر نہ کر سکے۔ 2015ءمیں وزیراعظم نواز شریف نے روس کے شہر اوفا میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کا لفظ غائب تھا۔ اوفا اعلامیے کے بعد نواز شریف نہیں سنبھل سکے۔ جس حکمراںنے بھی کشمیریوں کی امنگوں اور آرزئووں کیخلاف کوئی فیصلہ کیا اسکا انجام برا ہوا۔ آج بھی کشمیری پاکستان کیساتھ وفادار ہیں لیکن ذرا اپنے دل سے پوچھئے کہ آپ کشمیریوں کے ساتھ کتنے وفا دار ہیں؟ کیا آپ پاکستان کیلئے وہ قربانیاں دے سکتے ہیں جو کشمیری دے رہے ہیں؟ کشمیریوں کی آخری منزل پاکستان ہے۔ آج کشمیریوں کے نام پر چھٹی مناتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ کی آخری منزل کون سی ہے؟