• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے سامنے چند تصاویر ہیں کچھ تصویریں میرے شامی بہن بھائیوں کی ہیں،میرے بچوں کی ہیں اور چند تصویریں میاں نواز شریف کی اپنے روحانی اور سیاسی استاد ضیاء الحق کے ساتھ ہیں۔ ان تصویروں پر بعد میں بات کروں گا، پہلے اپنے شامی بہن بھائیوں کی بات کرلوں۔
خواتین وحضرات! یہ تصویریں مجھ سے نہیں دیکھی جارہیں، انہیں دیکھ کر مجھے شرمندگی ہورہی ہے، میں ایک مسلمان ہوں، مجھ سے یہ منظر نہیں دیکھے جاتے،مجھے اسلامی ملکوں پر حیرت ہے، صرف حیرت نہیں افسوس بھی ہے میں تو ایک عام انسان ہوں، مختلف ملکوں کی سرحدوں میں جکڑا ہوا، انہی سرحدوں کے باعث میں عملی طور پر نہیں لڑسکتا ، اس لئے ظالموں کے خلاف بولتا بھی ہوں، لکھتا بھی ہوں، مجھے بہت افسوس ہے، مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں پر شرمندگی ہے، کیا یہ سارے غلام اسلام کے نام پہ دھبہ نہیں، کیا انہیں کوئی خبر ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ دو دو گز کی قبروں میں ہوں گے، ان کے دنیاوی لالچ خاک میں مل جائیں گے، کیا یہ دیکھتے نہیں کہ امت کو جس تسبیح میں نبی ؐ نے پرویا تھا، اس کے دانے بکھر رہے ہیں، اس کے پھول جھڑ رہے ہیں، شام میں ظلم ہورہا ہے اور غلاموں کی زبانوں پر چپ کے تالے لگے ہوئے ہیں، کیا یہ پیغام محمد ﷺ کی توہین نہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مسلمان حکمران درس حسینی ؓ سے آنکھیں چرا رہے ہیں، میرے سامنے پڑی تصویریں بول رہی ہیں، لاشوں کے ڈھیر ہیں، بےبسی کے منظر ہیں، آنکھوں میں آنسو ہیں، یہ سارے مناظر نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی منافقت پر رو رہے ہیں شاید اسی لئے کچھ عرصہ پہلے شامی مہاجرین کے لئے دروازے کھولتے ہوئے جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا تھا’’میں شامی مہاجرین کے لئے اس لئے سرحدیں کھول رہی ہوں کہ ان کی ا گلی نسل کو پتہ چل سکے کہ جب ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے تو جرمنی نے سرحدیں کھول دی تھیں حالانکہ مکہ اور مدینہ دور نہیں تھے‘‘ جرمن چانسلر کا یہ جملہ مسلمان ملکوں کے غلام اور منافق حکمرانوں کے منہ پر زوردار تھپڑ ہے۔
چند تصویریں میاں نواز شریف کی اپنے روحانی استاد ضیاء الحق کے ساتھ ہیں، ان تصویروں میں کئی یادگار تصویریں ہیں، ان تصویروں میں کئی جگہوں پر نواز شریف جنرل ضیاء الحق سے جمہوریت کا درس حاصل کرتے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ کئی تصویروں میں تو ضیاء الحق بڑے فخریہ انداز میں اپنے ہونہار شاگرد کا تعارف کروارہے ہیں۔ ایک تصویر میں تعارف کے وقت گیانی ذیل سنگھ بھی کھڑے ہیں، انہوں نے اس مرحلے پرکیا کہا تھا تصویر یہ تو نہیں بتاتی البتہ ندامت کو ظاہر کردیتی ہے۔ آپ لوگ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ لوگوں نے وہ ویڈیو، آڈیو سمیت دیکھ رکھی ہے جس میں میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ وہ ضیاء الحق کا مشن جاری رکھیں گے۔ ضیاء الحق کا مشن کیا تھا، اس کے کافی نتائج پاکستانی معاشرے کو بھگتنا پڑے ہیں اور’’مشن‘‘ کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، ضیاء الحق کے ’’مشن‘‘ کی ایک جھلک عرب خطے میں بھی نظرآتی ہے۔ شاید لوگ بھول گئے ہیں کہ عرب، اسرائیل جنگ کے بعد جس امن دستے نے ایک اہم پہاڑی پر اسرائیل کا قبضہ کروایا تھا اس’’نیک‘‘ امن دستے میں ضیاء الحق کے علاوہ موجودہ وزیر اعظم کے والد بزرگوار بھی تھے۔ آج عرب ملک اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ شام میں بکھری ہوئی لاشوں کے پس پردہ بھی یہ’’امن‘‘ مشن ہے، اسی امن مشن نے تو عربوں کو کمزور اور اسرائیل کو طاقتور بنایا۔
ضیاء الحق دور کا ایک واقعہ سینئر صحافی اظہر مسعود بیان کرتے ہیں، اظہر مسعود اس وقت مسلم اخبار میں تھے وہ بتاتے ہیں کہ ’’جس خاندان کا پاک بنک تھا ، اسی خاندان کا ایک فرد میاں پرویز اسلم تھا،اس خاندان کے راولپنڈی میں بڑے بڑے گھر تھے، بنیادی طور پر یہ خاندان ملا ہی ٹولہ ضلع اٹک کا رہنے والا تھا۔ میاں پرویز اسلم راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر تھے۔ میری ان سے دوستی تھی، ان کا بانڈڈ ا سٹور بھی تھا جہاں انکے بھائی جاوید اسلم کا برادرنسبتی میاں سجاد اکرم بیٹھتا تھا۔ ایک روز میاں پرویز اسلم نے مجھ سے کہا کہ میرا ایک دوست پنجاب میں وزیر بنا ہے، وہ مری سے واپس آرہا ہے اس کے لئے ایک ٹی وی اور وی سی آر کا اجازت نامہ لینا ہے، یہ اجازت نامہ لے دو۔ خیر میں نے ایک عراقی سفارتکار سے یہ اجازت نامہ حاصل کیا اور میاں پرویز اسلم کے ا سٹور پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد ایک سفید رنگ کی ہنڈا گاڑی رکی، اس میں میاں پرویز اسلم کے دوست نواز شریف اور ان کی اہلیہ آئے۔ پرویز اسلم نے میرا تعارف کروایا اور نواز شریف کو بتایا کہ یہ میرے دوست اظہر مسعود ہیں، مسلم اخبار کے چیف رپورٹر، انہوں نے ہی اجازت نامہ حاصل کیا ہے، یہ آپ کا انٹرویو بھی کریں گے۔ اس زمانے میں جو پرمٹ یا اجازت نامہ بنتا تھا اس کا ایک پرنٹ فارن آفس اور ایک سی بی آر جاتا تھا جبکہ ایک ا سٹور والوں کو دیا جاتا تھا۔ عراقی سفارتکار سے حاصل کردہ اجازت نامے پر انیس انچ کا ٹی وی لکھا تھا، نواز شریف نے اجازت نامہ دیکھا اور کہا کہ مجھے تو تیس انچ کا چاہئے، مجھے تبدیل کروانے کے لئے کہا تو میں نے کہا کہ اب میں نہیں کہہ سکتا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں پرویز اسلم کے کلاس فیلو پنجاب کے وزیر خزانہ نے لاہور میں کسی کو فون کیا اور کہا کہ اسلام آباد سی بی آر میں کسی کو فون کرکے بتائو کہ جس جگہ اجازت نامہ پر انیس انچ لکھا ہے وہاں وائیٹنر لگا کر تیس انچ کردیا جائے۔ یہی بات فون بند کرکے نواز شریف نے ا سٹور والوں سے کہی، یہ 1982ءکا واقعہ ہے مگر میں آج تک سوچتا ہوں کہ کتنے برس پہلے اس شخص نے کیا کیا تھا، انیس انچ کو کس طرح تیس انچ کروایا تھا، کس طرح کہا تھا کہ وائیٹنر لگا کر انیس کی جگہ تیس کردو۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ وہ شخص پھر وزیر اعلیٰ بنا، وزیر اعظم بنا اور آج بھی مسلسل جھوٹ بول رہا ہے‘‘۔
یہ تو سینئر صحافی ا ظہر مسعود نے ایک پردہ بےنقاب کیا۔ منافقت کا ایک واقعہ حال ہی میں پیش آیا ہے، احد چیمہ گرفتار ہوا تو چند بیوروکریٹ تڑپ اٹھے، پنجاب حکومت اور ن لیگ کے ترجمانوں نے ایک افسر کی ترجمانی شروع کردی۔ پنجاب اسمبلی نے قرارداد منظور کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے ڈان لیکس کے معاملے پر ایک سینئر بیوروکریٹ رائو تحسین علی خان کو فارغ کردیا گیا تھا وہ تو احد چیمہ سے بہت سینئر تھے۔ وہ کرپشن پر تو فارغ نہیں ہوئے تھے، اس خبر میں تو ان کا قصور بھی نہیں تھا، وہ تو ملتان میں تھے۔ اس وقت باقی بیوروکریٹس کیوں حپ رہے، چہل کلاں قلعہ دیدار سنگھ کے نبیل اعوان سمیت کسی کو ہوش نہ آیا کہ ایک سینئر بیوروکریٹ کو فارغ کردیا گیا ہے، کیا یہ منافقت نہیں تھی، پھر حکومت کے ترجمان ا ور ن لیگ کے رہنماءکیوں چپ رہے تھے؟، اس وقت کسی اسمبلی کو قرارداد منظور کرنا کیوں نہ یاد آیا؟ اگر رائو تحسین علی خان نے کرپشن کی ہوتی تو چہیتے بیوروکریٹس بھی بولتے، حکومتی ترجمان بھی شور ڈالتے، قراردادیں بھی منظور ہوتیں، بس رائو تحسین کا یہی گناہ تھا کہ اس نے خود کو کرپشن سے دور رکھا اور احد چیمہ کی یہی’’نیکی‘‘ ہے کہ اس نے جی بھر کر حکمرانوں کو راضی رکھا۔ وہ بڑے بڑے منصوبوں میں حصہ دار بنتا گیا، کرپشن کا کردار بن گیا۔
صاحبو! یہی رویہ منافقت ہے اور یاد رکھو کہ اب منافقت نہیں چلے گی۔ بقول منصور آفاق؎
پلٹ پلٹ کہ نہ دیکھ اس کا دلربا چہرہ
کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ

تازہ ترین