• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارض و سماء: ’’صوتی آلودگی‘‘

ندا سکینہ صدیقی

آلودگی دنیا بھرمیںا یک سنگین مسئلہ بن چکی ہے ۔اس کی کئی اقسام ہیں اور ہر قسم انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔آبادی میں اضافے کے ساتھ آلودگی کے مسائل بھی دن بہ دن بڑھ رہے ہیں ۔ایک وقت تھا جب گائوں ،دیہات میں آلودگی کانام ونشان تک نہیں تھا لیکن اب کیا گائوں ،کیا دیہات ،کیا شہر، کیا قصبے غرض یہ کہ ہر گلی کوچے میں آلودگی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔فضائی اورآبی آلودگی کے علاوہ صوتی آلودگی نے بھی خوب سر اُٹھا یا ہے ۔

ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں صوتی آلودگی آگ کی طرح پھیل رہی ہے ۔پاکستان میں بھی پہلے کے مقابلے میں صوتی آلودگی کافی حد تک بڑھ چکی ہے ۔جس کا بچے ،نوجوان ،بوڑھے یہاں تک کے چرند پرند سب اس سے دوچار ہیں ۔انسانی زندگیاں سماعت اور ڈپریشن جیسی بیماریوںمیں مبتلا ہورہی ہیں ۔ سماعت کی صلاحیت تقریباً بیس ہزار ہرٹز ہوتی ہے ،اگر یہ بیس ہزار سے تجاویز کر جائے تو انسان قوت سماعت سے محروم ہوجاتاہے۔

موجودہ دور میں بسوں اور گاڑیوں میں لگائے گئے جدید ہارن ،ریل گاڑیوں ،رکشوں ،جنریٹروں کا شور ہی نہیں موسیقی کا شور بھی عام ہوچکا ہے ،گرچہ آہستہ آہستہ لوگ ان تمام شور کے عادی ہو رہے ہیں لیکن ہیں تو خطرناک۔ان میں سب سے زیادہ پریشان کن ٹریفک کا شور ہے ،اس کی باعث فالج اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کیا ہے ۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، یورپی ممالک میں ہر تیسرا شخص ٹریفک کے شور کی وجہ سے صحت سے متعلق مختلف مسائل کا شکار ہے ۔تازہ ترین تحقیق کے مطابق صوتی آلودگی موٹاپا اور نیند کے مسائل بھی پیدا کرتی ہے ۔نیند میں اگر لوگوں کو شور سنائی دے تو بلڈ پریشر ،فشار خون اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کے بعد صوتی آلودگی انسانی صحت کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں اس کی وجہ سے لوگ ذہنی تنائو اور نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہورہے ہیں ۔شور انسان میں چڑچڑا پن پیدا کرتا ہے ،جو مزید نفسیاتی بیماریوں کی اہم وجہ ثابت ہوتا ہے ۔وہ افراد جوایسی جگہوںپر کام کرتے ہیں جہاں شور زیادہ ہو ،ان کواکثر سر درد ،بے چینی اور متلی کی شکایت رہتی ہے ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ آلودگی نہ صرف انسان بلکہ جانوروں اور ماحولیا تی نظام کے لیے بھی نقصان دہ ہے ۔حال میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق کراچی میں صوتی آلودگی کا تناسب پچھلے دس سال میں تیزی سے بڑھا ہے ۔اس سے سب سے زیادہ دس سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہورہے ہیں ۔

واضح رہےکہ شور کو ناپنے کا پیمانہ ڈیسی بل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زیرو ڈیسی بل کا مطلب وہ کم سے کم آواز ہے جوانسانی کان محسوس کر سکتے ہیں ،20 ڈیسی بل آواز ایک سر گوشی سے پیدا ہوتی ہے ،40 ڈیسی بل آواز کسی پر سکون جگہ میں ہو سکتی ہے ،60 ڈیسی بل آواز گفتگو سے پیدا ہوتی ہے ،جب کہ 80 ڈیسی بل سے اوپر آواز انسانی سماعت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے ۔پنجاب یونیورسٹی کے سینٹر آف اینوائرمینٹل سائنسز کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے تقریباً 90 فی صد علاقوں میں شور کا لیول 70 ڈیسی بل سے زیادہ ہے۔

ارض و سماء: ’’صوتی آلودگی‘‘

 پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کی ایک تحقیق کے مطابق لاہور میں بس ڈرائیور سب سے زیادہ شور والے ماحول میں وقت گزارتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سماعت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔پاکستان میں شور کو قابو پانے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا کیا گیا ۔شہروں میں زیادہ تر شور تعمیرات، ٹریفک اور تفریحی سرگرمیوں کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی شہر میں شور کے لیول کا تعین کرنے کے لیے کوئی قومی سروے نہیں کیا جاتا۔

جرنل آف لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹریفک کے شور سے بہت سے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں ۔ ٹریفک کا شور قوت سماعت میں کمی ،ہائپر ٹیشن ،بے خوابی ،بے چینی ،امراض قلب اور بلڈ پریشر جیسی خطر ناک امراض کا باعث بن سکتا ہے ۔شدید شور سے انسان کے کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے ۔نیشنل ٹیکسٹائیل یونیورسٹی کی ماہر نفسیات ڈاکٹر آصفہ عارف کے مطابق ٹریفک کے شورسے لوگوں میں ڈپریشن بڑھتا ہے ۔

 اگر ٹریفک کے مسائل ،خاص طور پر صوتی آلودگی پر قابو پالیا جائے تو سڑکوں پر ہونے والے جھگڑوں میں بھی واضح کمی ہوجائے گی ۔ محکمہ تحفظِ ماحولیات فیصل آباد کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر نعمان یونس کے مطابق اٹھارویں آئینی ترمیم سے پہلے تک نیشنل انوائرمنٹ کوالٹی سٹینڈرڈز پر عمل درآمد کرتے ہوئے صوتی آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی تھی ،تاہم ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں کو سونپ دی گئی کہ وہ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے نئے قوانین متعارف کروائیں ۔

 سیمینارز،ور کشاپس ، تعلیمی اداروں میں لیکچرز ،ٹی وی اشتہارات ،کاربن مونوآکسائیڈ ،ٹیسٹ کیمپینگ اور دیگر سر گر میوں کے ذریعے ہم صوتی آلودگی کو کم کرسکتے ہیں ۔اُمید ہے کہ اس طرح سے لوگوں کے رویوں میں تبدیلی رونما ہوگی اور لوگ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوشش کر یں گے ۔

ماحولیاتی ماہر ین کے مطابق صوتی آلودگی کے بڑھنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں میں ٹریفک قوانین کا شعور نہیں ہے ۔سائیکل ،موٹر سائیکل ،کار اور ٹرک ڈرائیورزہر کوئی پریشر ہارنز کا استعمال کرتاہے ،جس سے صوتی آلودگی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے ۔

ماہرین کے مطابق ہر طرح کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے انسانی رویوںمیں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے ۔ صوتی آلودگی کے حوالے سے ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جب آواز کے اثرات ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائیں اور ماحول میں خلل پیدا کریں تو صوتی آلودگی وجود میں آتی ہے ۔

تحقیق کے مطابق پریشر ہارن اور ٹریفک کے شور سے دنیا بھر میں تقریباً بارہ کروڑ لوگ مختلف سماعتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 ء میں شور کے باعث موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے تقریباً7 ہزار ،2014 ء میں تقریباً 6 ہزار 8 سو چالان کیے گئے ،جب کہ گزشتہ کئی سالوں سے چالانوں کی تعداد 7 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کی سہولت کا فائدہ اس وقت ہوسکتا ہے جب یہاں صنعتی شعبے میں آلودگی سے پاک مصنوعات بر آمد ہوں گی ۔حکومت اور نجی شعبوں کو مشتر کہ طور پرآلودگی کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانا ہوگا ۔ گلیوں ،محلوں میں جنریٹرز کاشور ، ٹریفک کا شوراور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے بھی آلودگی بڑھ رہی ہے ۔

دراصل آلودگی کا مسئلہ آبادی سے شروع ہوتا ہے اس لئے آلودگی پر قابو پانے کے لئےپہلے آبادی پر کنٹرول کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔دورِحاضر کے اس اہم ترین مسئلے کے لیے محکمہ ماحولیات بھی کوشاں ہے ،تا ہم صفائی کے حوالے سے ہر ایک کو انفرادی سطح پر اپنا،اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔

اس میں کمی لانے کے لیے سب سے اہم امر انفرادی سطح پر آگہی ہے ۔لوگوں کو اس سے متعلق مسائل کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے ۔مشاہدے کے مطابق ماضی کی نسبت آنتوں کی بیماریو ں ،ہیپا ٹائٹس ،ٹائی فائیڈ ،ملیریا اور دیگر موذی امراض میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔

آلودگی کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے لیکن اس کے حل کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیںدی جارہی ہے ۔ پنجاب میں بھی صنعتی آلودگی اور ٹریفک کی وجہ سے صوتی و فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے صنعتوں کے قیام کے وقت ماحول کے تحفظ کے لئے اقدامات کو مدنظر رکھنا چاہیے،کیوں کہ صنعتیں آلودگی پھیلانے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔آلودگی میں کمی اور ماحولیات کی بہتری میں درخت بھی اہم کردارادا کرتے ہیں ،اسی لیے ہمیں اس کی حفاظت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

پرندوں پر اثرات

صوتی آلودگی صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ پرندوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔مسلسل صوتی ماحول میں رہنے والے پر ندوں میں تحقیق کے دوران وہی علامات پائی گئیں جو انسانوں میں پائے جاتی ہیں ۔امریکی محقیقن نے ان علاقوں کےپر ندوں کا انتخاب کیا تھا،جہاں تیل وگیس حاصل کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے مشینیں چلتی ہیں ۔ 

ماہرین نے دریافت کیا کہ صوتی آلودگی کے ماحول میں رہنے والے پرندوں کے خون میں ہارمون کی سطح عام سطح سے بلند تھی۔ ہارمون کی سطح ذہنی بے چینی، انتشار جیسی کیفیات کے نتیجے میں بلند ہوتی ہیں۔مسلسل شور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ شور والے علاقوں میں نشوونما پانے والے بچے پُرسکون علاقوں کے مقابلے میں چھوٹے رہ جاتے ہیں اور ان کی زندگی بھی کم ہوتی ہے ۔جس کے سبب پر ندے گھبراہٹ کا شکاررہتے ہیں ،وہ یہ اندازہ بھی نہیں کر پاتے کہ شکاری پرندوں سے کیسے بچنا ہے ،خوراک کہاں سے حاصل کرنی ہے ۔ اگر ہم پرندوں کی نسلوں کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا ہوگا ۔

صوتی آلودگی پر قابو پانا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگوں میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نجات دلائی جاسکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے کیوں کہ عوام کے تعاون کے بغیر اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس خطرناک صورت حال پر قابو پانے میں اپنا اپنا کردار اداکریں، کیوں کہ جب ہم ماحول کو بچاتے ہیں تو دراصل ہم خود کو بچا رہے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین