• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

روس جوھ آج ’’رشین فیڈریشن‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، جب بھی اس کا اور اس کی خفیہ ایجنسی کا ذکر آتا ہے، تو ذہن میں پہلا نام ’’کے جی بی‘‘ یعنی ’’کمیٹی فار اسٹیٹ سیکیورٹی‘‘ کا آتا ہے، 1954 سے 1991ء کے دوران اس کا بنیادی مقصد سوویت یونین کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا تھا۔ 

اس وقت اس تنظیم میں چار لاکھ 80 ہزار اہل کار کام کرتے تھے۔ سوویت یونین کے کم و بیش تمام رہنما عوام کی معلومات کے حصول کی خاطر، ان کی نگرانی، انہیں کنٹرول کرنے اور خفیہ آپریشن کی منصوبہ بندی کے لیے، کے جی بی پر انحصار کرتے تھے۔

 1954 ء سے قبل روسی انٹیلی جنس ایجنسی دیگر اداروں کے ماتحت خدمات انجام دیتی رہی، جن میں 1917ء سے 1922 ء کے دوران ’’چی کا‘‘ (Cheka) نامی تنظم، جو کہ سوویت خفیہ پولیس تنظیم کے ماتحت کام کرتی تھی، ان کی اہم خدمات میں کرمنل کوڈ کے تحت سزا یافتہ افراد کا لیبر کیمپ ’’گلیک سسٹم‘‘ (جن میں کئی سیاسی قیدی بھی شامل تھے) کی دیگ ریک کرنا، خوراک کی ضرورت کو پورا کرنا، سیاسی قیدیوں کو خفیہ مقام پر منتقل کرنا اور حکومتی مخالفین کو حراست میں لینے جیسی ذمہ داریاں شامل تھیں۔ 

بعدازاں اس تنظیم کو تحلیل کر کے 1934ء سے 1943ء کے دوران ’’پیپلز کمیسٹریٹ فار اسٹیٹ سیکیورٹی‘‘ (جسے (NKGB) کہا جاتا ہے) کے زیر اہتمام ’’مین ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ سیکیورٹی‘‘ (یعنی، NKVD) کو فعال کر دیا گیا، ان دونوں تنظیموں کا مقصد عوام سے لے کر خفیہ اداروں تک کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا اور پھر اسی بنیاد پر مستقبل میں ملکی حفاظت کے لیے لائحہ عمل طے کرنا تھا۔

 اس کے علاوہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ملک و قوم کی سالمیت کی حفاظت کرنا بھی ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ 1943 ء سے 1946 ء کے دوران یہ دونوں تنظیمیں ایک دوسرے سے علیحدہ تو ہوگئیں، لیکن ان کا مقصد ایک ہی تھا۔ 1946ء میں این کے جی بی، کا نام تبدیل کر کے، ایم جی بی (MGB) رکھ دیا اور پھر 1954ء میں کے جی بی (KGB) کر دیا گیا، جو 1991ء تک فعال رہی۔

 اس ادارے سے کئی ایسی غلطیاں ہوئیں، جس کے باعث حکومت وقت کو اسے تحلیل کرنا پڑا۔ ان کی سب سے بڑی غلطی ”آپریشن انفیکشن“ تھی۔ جس کے تحت یہ ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی کہ، امریکا جان بوجھ کر دنیا بھر میں ایڈز جیسا موذی مرض پھیلا رہا ہے۔ 

ایڈز کو امریکا کا حیاتیاتی ہتھیار قرار دیتے ہوئے سوویت یونین 10 برس تک افواہ پھیلاتا رہا کہ امریکا ایڈز پھیلا کر دنیا کو ہلاک کرنا چاہتا ہے، بعدازاں 1992ء میں روسی انٹیلی جنس سربراہ ’’یوگینی پریماکوف‘‘ (جو بعد میں وزیراعظم بھی بنے)، نے اعتراف کیا کہ یہ افواہیں پھیلانے میں کے جی بی کا ہاتھ تھا۔ 

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

اس کے علاوہ 1991 ء میں سوویت یونین کی تباہی کا ذمہ دار بھی اسی ادارے کو ٹھہرایا گیا تھا۔ لیکن کے جی بی کو اس وقت تحلیل کردیا گیا، جب اس کے سربراہ ’’کرنل جنرل ولادی میر کریچکوف‘‘ نے اس کے وسائل کو استعمال کرکے 1991ء میں صدر ’’میخائل گورباچوف‘‘ کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تھی۔ 23 اگست 1991ء کو کرنل جنرل ولادی میر کو گرفتار کرلیا گیا اور 6 نومبر 1991ء کو باضابطہ طور پر کے جی بی ختم کر کے ’’جی آر یو‘‘ یعنی ملیٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کو فعال کر دیا گیا تھا، جسے 1918 میں سوویت یونین کے قیام سے قبل، ’’ولادی میر لینین‘‘ نے تخلیق کیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد فوجی ایٹیلی جنس کی سرگرمیوں کو ہینڈل کرنا تھا، بعدازاں یہ ملک کے خلاف ہونے والی تمام کارروائیوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔ 

روسی انٹیلی جنس ایجنسی کا نام چاہے کچھ بھی ہو، کسی بھی ادارے کے ماتحت کام کرتی ہو، اس حقیقت سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دنیا کی بہترین اور طاقت ور ایجنسیوں کی صفِ اول میں شامل ہے۔ اس کی طاقت اور اثر و روسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق ایجنٹ کے مطابق وہ امریکا میں اس حد تک اثر و روسوخ رکھتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر امریکی سرزمین پر روسی خفیہ ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔

 یہ جی آر یو کی ہی کارروائی تھی کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں سابق چیچنی صدر ’’ظلیم خان عبدالمسلم ووچ یانداربیی‘‘ کی گاڑی میں 2004 میں اس وقت بم نصب کیا جب وہ قطر کے دارالحکومت دوہا میں قیام پذیر تھے۔

ادارہ چاہے کوئی بھی ہو، صرف اُسی صورت میں طاقت ور اور دیر پا قائم رہ سکتا ہے، جب اس کے اراکین مستحکم، خود مختار اور محفوظ ہوں۔ لیکن اگر ہم رشین فیڈریشن کی خفیہ ایجنسیوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ انتہائی سیاہ اور تاریک ہے، کیوں یہ خطرہ (بغاوت یامخالفت) محسوس ہونے کی صورت میں اپنے قابل سے قابل ایجنٹس کو موت کی نیند سُلانے سے گُریز نہیں کرتیں اور موت بھی ایسی جس سے دشمن بھی پناہ مانگے۔ روسی خفیہ ایجنسی اپنے ہی باغی ایجنٹس کو مروانے کے لیے انتہائی تباہ کُن اور تاب کار مادوں کا استعمال ملکی فعال خفیہ ایجنٹس کے ذریعے کرواتی ہیں۔ 

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

اس کی ایک مثال (الیگزینڈر لٹوینینکو) آپ نے گزشتہ مضمون میں پڑھا ہوگا کہ کیسے پولونیم – 210 کے استعمال سے الیگزینڈر لٹوینینکو کو مروایا گیا کہ آخر تک اس بات کا تعین ہی نہیں کیا جاسکا کہ کس زہریلے تاب کار مادے کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ مادہ جو کہ برطانیہ میں ممنوع ہے وہ ملک میں کیسے لایا گیا۔ 

دوسری جانب اس قتل کیس کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر سیاست کا کھیل کھیلا گیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ برطانیہ نے روسی ایجنٹ کو جان بوجھ کر مروایا ہے۔ یہاں یہ واضح کر دیں کہ الیگزینڈر لٹوینینکو پہلا ایجنٹ نہیں ہے جسے اس طرح ختم کروایا گیا ہو، اس سے قبل بھی کئی ایسے ایجنٹس تھے، جنہیں ابدی نیند سُلا دیا گیا۔

 زمانہ قدیم سے ہی زہریلے اور انتہائی تباہ کُن تاب کار مادوں کے استعمال سے خفیہ ایجنٹس کو موت کی نیند سُلانے کے بعد ان کے قتل کو کسی حادثے کا رنگ دینے کی بہت سی مثالیں ہیں۔

اگر ہم 82 (قبل از مسیح) روم کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں بھی انتہائی زہریلے مادوں کے استعمال پر نہ صرف پابندی عائد تھی بلکہ خلاف ورزی کی صورت میں قانون بھی موجود تھا، جس پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا تھا۔

 لیکن اس کے باوجود نپولین کو زہر دیا گیا اور ظاہر یہ کیا گیا کہ اس کی موت طبی تھی۔ اس کے بالوں سے آرسینک نامی زہریلے مادے کا ملنا محض اتفاق نہیں تھا بلاشبہ یہ ہی اس کی اچانک موت کا سبب بنا، جس پر مورخین آج بھی تعجب کرتے ہیں۔ 

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

دور حاضر میں چند ایسی قوموں میں سے ایک سوویت یونین بھی ہے جو اپنی خارجہ پالیسی کو ڈھال بنا کر اس قسم کے اقدام اُٹھاتی ہیں یعنی سیاسی حربے استعمال کرکے ایجنٹس کے قتل کو حادثہ قرار دینا۔ روس میں اس نوعیت کے اقدام قتل کا آغاز ’’جوزف اسٹالین‘‘ کے دور میں ہوا، جب اس نے اپنے حریف اور سابق ایجنٹ ’’لیون ٹراسوکی‘‘ کو جلا وطنی کے دوران میکسیکو میں برف کی سل سے کھوپڑی پھوڑ کر جان سے مارنے کے بعد اسے حادثہ قرار دیا تھا۔

آپریشن ڈیتھ ٹو اسپائیز - اسمرش

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے طریقہ کار میں خاطر خواہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ جوزف اسٹالین نے اس طرح کی واردات انجام دینے کے لیے 1943ء میں علیحدہ ڈپارٹمینٹ بھی تشکیل دیا تھا، جس کا نام ’’ڈیتھ ٹو اسپائیز - اسمرش‘‘(Death to Spies - SMERSH) رکھا گیا۔ بعدازاں اس کے ارکان نہ صرف کے جی بی میں شامل ہوئے بلکہ طویل عرصے تک سرگرم بھی رہے، اس کے لیے کے جی بی نے خفیہ لیبارٹری تیار کی، اس لیبارٹری میں اُن ایجنٹس کے قتل کی منصوبہ بندی کی جاتی جو، ان کے لیے خطرے کا باعث تھے یا ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تھے۔ 

اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ اس طرح کے اقدامات سرد جنگ کے زمرے میں آئیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دوسری جنگ اعظیم کے بعد سرد جنگ کا آغاز کرنے والوں میں سے ایک سوویت یونین بھی تھا۔ جب یوگوسلاو کے صدر اور عظیم رہنما ’’جوسپ ٹیٹو‘‘ نے سوویت بلاک میں شمولیت سے انکار کیا تو جوزف اسٹالین نے ان کے قتل کی منصوبہ بندی شروع کر دی، کیوں کہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔

 جوسپ ٹیٹو کو کن طریقوں اور عوامل کے ذریعے مروایا جاسکتا ہے، اس کی منصوبہ بندی کے جی بی کی خفیہ لیبارٹری میں کی جاتی تھی۔ جن خطر ناک طریقہ کار پر کثرت سے زور دیا گیا ان میں، نمونیائی طاعون (طاعون، ایک وبائی متعدی بیماری ہے، جس میں بغل یا رانوں میں پھوڑا نکلتا ہے۔ کم و بیش ہی کوئی شخص اس کے زہر سے جانبر ہوتا ہے، اس کے زیر اثر آنے والے شخص پر عموماً قے، غشی اور خفقان کا غلبہ رہتا ہے۔ یہ مرض چوہوں اور پسوؤں جیسے جانوروں کے ذریعے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ 

اس کی تین اقسام ہیں، جن میں سے ایک نمونیائی طاعون ہے۔) اسپرئے کا استعمال اور مہلک گیس کسی باکس میں بند کر کے تحفتناً دی جائے، جسے کھولتے ہی اس کی زد میں آ کر جوسپ ٹیٹو کی موت واقع ہو جائے، شامل تھے۔ 1953ء میں جوزف اسٹالین کی موت کے بعد آپریشن ڈیتھ ٹو اسپائیز بظاہر ختم تو ہوگیا، لیکن اس نوعیت کی سازشیں بین الاقوامی سطح پر شروع ہو گئیں۔

سائینائیڈ کا استعمال

1950ء کی دہائی میں پچیس سالہ سوویت خفیہ جاسوس ’’بوہڈان ستاشن اسکائی‘‘ (Bohdan Stashinsky) نے دو یوکرینی باشندوں کی جان جرمنی میں سائینائیڈ کے ذریعے لی تھی۔ ان میں ایک یوکرین کے سیاست دان ’’اسٹفن بنڈیرا‘‘ جنہیں 1957ء میں جب کہ دوسرے 1959ء میں نشانہ بنے والے سیاسی کارکن اور قلم کار ’’لیو ریبٹ‘‘ شامل تھے۔ ان دونوں پر اسپرے گن سے وار کیا گیا تھا، مہلک گیس کی زد میں آ تے ہی دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت واقع ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ سائینائیڈ بے رنگ مہلک گیس ہے، اکثر اوقات یہ کرسٹل کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔

 اس کی بو، کڑوے بادام کی مانند ہوتی ہے- اگر کوئی شخص اس کی زد میں آجائے تو اسے سر میں درد اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مہلک زہر جسم میں موجود خلیوں کو ملنی والی آکسیجن ختم کردیتا ہے جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور چند منٹوں میں زیر اثر شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

اس ہتھیار کو سائنسدانوں نے کُتوں پر استعمال کر کے اس کے مہلک پن کا اندازہ لگایا تھا۔ بوہڈان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے جو کام سونپا جائے وہ مکمل ضرور کرتا ہے۔ (کام سے مراد ’’قتل‘‘ سے ہے)۔ اسے اسٹفن بنڈیر کی سیاسی جماعت کے رہنما یاروسلاوا اسٹیٹسکو (Yaroslav Stetsko) کو جان سے مارنے کے نتیجے میں ’’آرڈر آف دی ریڈ بینر‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔

تاب کار عنصر تھیلیم کا استعمال

قارئین کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سوویت کے خفیہ ایجنٹس کی فہرست میں صرف بوہڈان ستاشن اسکائی جیسے سفاک قاتل ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی فورسیز میں نیکولائی کھوکلو (Nikolai Khoklov) جیسے رحم دل اور قابل جوان بھی شامل ہیں، جس نے 1954ء میں یوکرین سے تعلق رکھنے والے جارجی اوکولووچ (Georgi Okolovich) کی جان بچا کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

کے جی بی کے سابق خفیہ ایجنٹ نیکولائی کھوکلو کو جرمنی میں مقیم جارجی اوکولووچ، کے قتل کی ذمہ داری دی گئی تھی، جس کے لیے انہیں ایک عدد الیکڑک گن دی گئی جس کی گولیوں میں سائینائیڈ بھرا ہوا تھا۔ نیکولائی کھوکلو ایک قابل آفیسر کی طرح تمام تر صلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے جارجی اوکولووچ کے مکان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، لیکن عین وقت پر ان کے ضمیر نے اس کی اجازت نہیں دی تو انہوں نے سی آئی اے کے سامنے خود کو سرینڈر کر دیا۔ 

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

کے جی بی نے اس شکست کو کسی طور تسلیم نہیں کیا اور خفیہ ایجنٹ کے ذریعے نیکولائی کھوکلو کے کھانے میں تاب کار عنصر تھیلیم حل کروا دیا، جسے نوش کرنے کے چند منٹ بعد ان کی موت واقع ہوگئی۔ تھیلیم ایک انتہائی تاب کار عنصر ہے جسے کیڑے مار ادویہ میں عام استعمال کیا جاتا ہے۔

رائےسِن بھری گولیوں کا استعمال

رائےسِن سفید رنگ کا سفوف ہوتا ہے، یہ مہلک مادہ ہے، جسے ارنڈ کے بیجوں سے تیار کیا جاتا۔ یہ خون کے سرخ خلیوں کی چسپیدگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سلو پوائزن کی طرح کام کرتا ہے، خالص رائےسِن کی معمولی مقدار کسی بھی شخص کی جان لینے کے لیے کافی ہے۔ اگر اسے انجیکشن کی صورت میں دیا جائے تو 1.78 ملی گرام جب کہ سفوف کی صورت میں 1 ملی گرام کھانے میں حل کردیا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

 اس کے زیر اثر آنے والے شخص پر متلی، قے، خون کی کمی اور ڈائیریا جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جو آہستہ آہستہ اس مریض کی جان لے لیتی ہے۔ اس کے مہلک پن کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا سفوف آنکھوں میں چلا جائے یا آپ کی جلد پر لگ جائے تو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹس 1978ء سے قبل نہ صرف رائےسِن کے مہلک پن سے بہ خوبی واقف تھے بلکہ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ اس کے استعمال سے کوئی انہیں پکڑ نہیں سکے گا، اسی وجہ سے خفیہ کارندوں نے اسے کئی کیسز میں خفیہ ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ 

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

کے جی بی بعض کیسز میں اپنی ماہرانہ خدمات مشرقی یورپ کو بھی فراہم کرتا ہے۔ 1978ء میں لندن کی سڑکوں پر حیرت انگیز انداز میں بلغارین خفیہ پولیس کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔ جس کا مقصد جارجی مارکوو نامی بلغارین حکومت مخالف قلم کار کو مروانا تھا۔ اس کے قتل کی واردات کا انداز انتہائی جدید اور ناقبل یقین تھا، یہ کسی جیمز بانڈ کی فلم کے منظر سے کم نہیں تھا، جس میں جدید آلات کے ذریعے دشمنوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

 بالکل اسی طرح کے جی بی کے ایجنٹس نے اسے مروانے کے لیے چھتری کا استعمال کیا۔ یہ کوئی معمولی چھتری نہیں تھی بلکہ رائےسِن کی گولیوں سے لیس تھی۔ خفیہ ایجنٹ نے جارجی مارکوو کی ٹانگ پر گولی ماری، جس کے باعث وہ زخمی ہوگیا۔

 چند دن اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی، بعدازاں اس کی باڈی کو پوسٹ مارٹم کے لیے برطانوی وزارت برائے دفاع کی اسپیشل برانچ بھیج دیا گیا، جہاں رائےسِن کی تشخیص ہوگئی۔ اس سے قبل 1971ء میں سوویت یونین کے مخالف روسی ناول نگار اور مورخ الیگزینڈر سولزینسنین (Aleksandr Solzhenitsyn) کو بھی رائےسِن کے ذریعے مروانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئے تھے۔

آپریشن اسٹروم 333

افغان صدر حفیظ اللہ امین کے قتل اور ان پر کیے گیے اقدام قتل کے بارے میں کون نہیں جانتا، گو کہ اب تک سرکاری سطح پر یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے سوویت یونین کا ہی ہاتھ تھا لیکن حالات و واقعات اسی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سوویت یونین اور اس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی نے ہی ان کے قتل کی سازش گڑھی تھی۔ 

ہوا کچھ یوں تھا کہ نور محمد ترکی کے دور حکومت کے دوران 5 دسمبر 1978ء میں سوویت رشیا اور افغانستان کے مابین بیس سالہ معاہدہ ’’ٹریٹی آف فرینڈشپ‘‘ طے پاجانے کے بعد سوویت یونین، افغان صدر نور محمد ترکی سے خطرہ محسوس کرنے لگی تھی، اس لیے انہیں راستے سے ہٹانا سوویت کے لیے بے حد ضروری ہوگیا تھا، کے جی بی کے خفیہ جاسوسوں نے ان کے سب سے قریبی اور بھروسے مند ساتھی حفیظ اللہ امین کو صدارت اور طاقت کا لالچ دے کر شریک کار بنایا اور انہیں 8 اکتوبر 1979ء کو اپنے راستے سے انتہائی سفاکی سے ہٹا دیا۔

جُرم کہانی: کام کا نہیں رہا، ختم کردو

 وعدے کے مطابق سوویت نے انہیں افغانستان کا صدر بنا نے کی تمام تر راہیں آسان کر دیں۔ کے جی بی کا اصول ہے کہ وہ کسی بھی جرم کا کوئی نشان و ثبوت باقی نہیں رہنے دیتے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ نور محمد ترکی کے قتل کے اتنے اہم گواہ یعنی حفیظ اللہ امین کو ایسے ہی چھوڑ دیتے۔

حفیظ اللہ امین کو کسی بے رحم طریقے سے مروانے سے قبل سوویت کے جاسوسوں نے انہیں 13 دسمبر 1979ء کو زہر دینے کی ناکام کوشش کی، جس کے نتیجے میں ان کا بھتیجا جاں بحق ہو گیا۔ چوں کہ سوویت پر حفیظ اللہ امین ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے، اس لیے وہ ان کے معمولات زندگی سے بخوبی آگاہ تھے۔

 اس حملے کے بعد سوویت نے ان پر دوسرا حملہ اسنائپر شارٹ کے ذریعے کروانا چاہ، لیکن حفیظ اللہ امین نے سابقہ حملے کے بعد اپنی سیکیورٹی میں اضافہ کرلیا تھا، جس سے ان کے سوویت کے ساتھی بھی لاعلم تھے، اسی باعث وہ ایک بار پھر بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ سوویت کے جاسوسوں کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ان دونوں حملوں کو جواز بناتے ہوئے حفیظ اللہ امین کو صدارتی محل چھوڑ کر کابل میں میں واقع ’’تاج بیگ محل‘‘ جسے قصر تاج بیگ بھی کہا جاتا ہے، میں منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ 

واضح رہے کہ سوویت آرمی تاج بیگ محل کو ایک وقت میں جنگ کے دوران ملٹری ہیڈ کوائٹر کے طور پر بھی استعمال کرتی رہی تھی۔ اس لیے وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھی، اس میں ڈھائی ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار جدید اسلحے کے ساتھ تعینات تھے، اس کے ہر آنے اور جانے والے راستوں کی نگرانی کی جاتی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ 20 دسمبر 1979ء کو بالآخر حفیظ اللہ امین اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر صدراتی محل چھوڑ کر تاج بیگ منتقل ہو گئے۔

 ان کا خیال تھا کہ یہاں وہ زیادہ محفوظ ہیں، لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ حقیقی دشمنوں کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ 27 دسمبر 1979ء کو تاج بیگ محل میں دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا، اس دوران خفیہ جاسوسوں نے انہیں ایک بار پھر زہر دینے کی کوشش کی لیکن وہ پھر ناکام رہے، بعدازاں اسی روز اس محل پر حملہ کر دیا گیا، آخر وقت تک حفیظ اللہ امین اس حملے کو دشمنوں کی کارروائی سمجھتے رہے، لیکن ان پر حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب انہوں نے اس حملے کے نتیجے میں سوویت سے مدد طلب کرنا چاہی اور ان کی جانب سے کوئی مثبت جواب موصول نہ ہوا۔

 حملے میں حفیظ اللہ امین اور ان کا بیٹا جاں بحق ہوگئے جب کہ بیٹی شدید زخمی ہوئی بعدازاں زندہ بچ جانے والے اہل خانہ میں سے تمام مردوں کو پھانسی جب کہ خواتین کو افغان جیل میں قید کر لیا گیا۔

تازہ ترین