ہم ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان کے سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں‘ میں یہ کالم اس دن کے حوالے سے لکھ رہا ہوں‘ جس میں تحریک آزادی کے حوالے سے ایک ایسی شخصیت کے بارے میں لکھ رہا ہوں جسے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اول کہا جاتا ہے جبکہ انہیں سندھ میں ’’سورھیہ بادشاہ‘‘ (بہادر بادشاہ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ابھی چند دن پہلے ہی سندھ میں ’’سورھیہ بادشاہ‘‘ کی یاد میں تقریبات منعقد ہوئیں مگر افسوس یہ ہے کہ یہ تقریبات صرف ایک دو اضلاع میں منعقد کی گئیں جن کا اہتمام بھی حر جماعت کی طرف سے کیا گیا اگر میں غلط نہیں تو حر جماعت کو بھی سورھیہ بادشاہ کبھی کبھی یاد آتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ ’’سورھیہ بادشاہ‘‘ کا دن ملک بھر میں بلکہ حکومت پاکستان کی طرف سے سرکاری طور پر منایا جائے اور اس دن سارے ملک میں سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں چھٹی ہونی چاہئے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا‘ یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ ہمارے سارے رہنما یہ بات کہتے آئے ہیں کہ پاکستان پرامن جدوجہد کا نتیجہ ہے‘ پرامن جدوجہد کے نتیجے میں ملک کی آزادی حاصل کرنا ایک بہت بڑی بات ہے‘ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے مگر کیا حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے حصول یا مسلمان علاقوں کی آزادی کے لئے کوئی قربانی نہیں دی گئی؟ اگر کوئی ایسی بات کہتے تو کیا یہ بات ان لوگوں کی توہین نہیں جن لوگوں نے برصغیر یا غیر منقسم ہندوستان میں انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک غیر معمولی مسلح جدوجہد کی اور خاص طور پر یہ رویہ اس قابل قدر اور قابل احترام شخصیت کی توہین نہیں جس نے انگریز سامراج کے خالف نہ فقط بغاوت کا علم بلند کیا بلکہ انگریز سامراج کو اس علاقے سے باہر نکالنے کے لئے مسلح جدوجہد کی اور اس جدوجہد کے دوران پتہ نہیں کتنی قربانیاں دی گئیں اور کتنے لوگوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں‘ اس شخصیت کا نام جس کامیں نے اوپر ذکر کیا ہے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی تھا‘ ان کا تعلق سندھ سے تھا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسلح جدوجہد فقط سندھ تک محدود تھی اور سندھ میں بھی فقط پیر صاحب‘ جسے سندھ میں ’’سورھیہ بادشاہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے مریدوں تک تھی‘ پیر صاحب کے مرید ’’حر‘‘ کہلاتے تھے اس لئے اسے ’’حر تحریک‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ اس حر تحریک نے برصغیر سے انگریز سامراج کے پائوں اکھیڑ دیئے اور اس تحریک کے بعد انگریز سامراج نے جلد سے جلد برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا ۔انگریز سامراج کو برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے دوران پیر صاحب کے مریدوں جنہیں حر کہا جاتا تھا اور اب بھی کہا جاتا ہے کو کیا کیا قربانیاں نہیں دینی پڑیں؟ خود پیر صاحب گرفتار کرلئے گئے اور انہیں انگریز سامراج کی ایک لے پالک عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی‘ پیر صاحب کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد ایک لمبے عرصے تک ہندوستان کے ایک دور دراز جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں مگر پیر صاحب نہ جھکے اور نہ معافی مانگی بلکہ دور دراز کی اس جیل سے بھی کسی نہ کسی طرح سندھ میں اپنے مریدوں کو ہدایات دیتے رہے کہ اس ’’جنگ آزادی‘‘ کو پوری بہادری سے لڑنا ہے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے کا عزم کیا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق ان جیلوں میں پیر صاحب کی کچھ ایسے لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو خود بھی انگریز سامراج کے خلاف اسی جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے قید تھے‘ ایسے کچھ ممتاز سیاسی رہنمائوں نے اپنی یادداشتوں میں پیر صاحب ’’سورھیہ بادشاہ‘‘ کی دلیری اور بہادری کی بے پناہ تعریف کی ہے۔ ایک ایسی رپورٹ کے مطابق ’’سورھیہ بادشاہ‘‘ جو شطرنج کے کھیل کے بڑے ماہر تھے روزانہ رات کو جیل میں شطرنج کا کھیل کھیلتے تھے اور اتنی دور جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے اور اپنے مریدوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود کبھی حوصلہ نہیں ہارااور جیل میں ایک بار بھی شطرنج کا کھیل نہیں ہارے۔ ان اطلاعات کے مطابق جس رات سورھیہ بادشاہ کو پھانسی دی گئی اس رات بھی پھانسی گھاٹ تک جانے سے پہلے شطرنج کا کھیل کھیلتے رہے اور اس رات بھی وہ نہیں ہارے۔ سورھیہ بادشاہ کے ساتھ انگریز سامراج کا یہ سلوک فقط ان کو پھانسی دیئے جانے تک روا نہیں رکھا گیا ، پھانسی کے بعد بھی انگریز سامراج کی پیر صاحب کے خلاف عداوت نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے‘ ان کی لاش کو کسی خفیہ مقام پر دفن کیا گیا آج تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ سورھیہ بادشاہ کو کہاں دفنایا گیا تھا ۔اس بات پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے کبھی پیر صاحب کی شہادت کادن منانے اور اس دن سرکاری طور پر سارے ملک میں چھٹی کا اعلان نہیں کیا، نہ ہی آج تک کسی حکومت اور اس کے کسی ادارے نے یہ مناسب سمجھا کہ اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ سورھیہ بادشاہ کی قبر کہاں ہے حالانکہ جب پیر صاحب کو پھانسی دیکر دفن کیا گیا اس وقت ہندوستان کے کئی افسران اس ساری صورتحال سے واقف تھے‘ میں نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے دور میں اپنے کالم میں خاص طور پر جنرل راحیل شریف سے گزارش کی تھی کہ نہ فقط سورھیہ بادشاہ کو ملک کا اعلیٰ ترین PostHumous ایوارڈ سے نوازا جائے بلکہ پیر صاحب کی قبر تلاش کرکے وہاں ایک یادگار تعمیر کرائی جائے۔ یہی درخواست میں فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر باجوہ صاحب سے بھی کرتا ہوں۔اس تحریک میں سندھ کے حروں نے جو قربانیاں دیں اس کی مثال بھی ملنا مشکل ہے‘ پیر صاحب کے گائوں ’’پیر گوٹھ‘‘ میں واقع پیر صاحب کے قلعہ پر بمباری کی گئی‘ حروں کو گرفتار کرکے جیل بھرنے کے بعد انہیں سندھ بھر میں خانگی بیرکس میں قید کرکے رکھا گیا‘ یہ حر اتنے عرصے تک قید رہے کہ وہاں ان کی اولادیں بھی ہوئیں اور وہ بچے جب جوان ہوئے تو رہا کیے گئے۔حروں کی صعوبتوں پر سندھ کے ایک ممتاز محقق محمد عثمان ڈیپلائی نے ’’سانگھڑ‘‘ نام سے کتاب بھی لکھی ہے۔