پاکستانی فلمی صنعت بُحران کا شکار رہنے کے بعد اب ترقی کی جانب مبذول ہے۔ کراچی میں اِن دنوں فلم اور ٹیلی ویژن ڈراموں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ متعدد فلمیں اور ٹیلی ویژن ڈرامے زیرتکمیل ہیں۔ فن کاروں کی ہمیشہ حکومت سے شکایت رہتی ہے کہ حکومت فلمی صنعت کی سرپرستی نہیں کرتی۔
موجودہ حکومت کی جانب سے ثقافتی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے ،جو اچھا قدم ہے، مگر ابھی ثقافتی پالیسی کے ثمرات فلمی صنعت میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اسی طرح کراچی فلم سوسائٹی کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا اہتمام ایک اچھی کاوش ضرور تھی، مگر بدقسمتی سے کراچی فلم سوسائٹی اور پاکستانی فلمی صنعت کے مابین اعتماد اور روابط کی کمی کے باعث فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن، فلم ایگزیبیٹرز ایسوسی ایشن نے فلم فیسٹیول میں فلمی صنعت سے وابسہ نمایاں اور چیدہ چیدہ شخصیات نے تحفظات کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے کراچی فلم سوسائٹی اور پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ شخصیات میں بدگمانی کی فضا پیدا ہوگئی۔
فلمی صنعت کی نمایاں شخصیات نے کراچی فلم سوسائٹی کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ اسے صرف کراچی کا فیسٹیول قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاہور کے فلمی ساتھیوں کو یکسر نظرانداز کرکے سوتیلے پن کا ثبوت دیا گیا ہے، بلکہ فلمی صنعت کے خلاف اسے سازش قرار دیا گیا۔ آئی ایم جی سی کے چیئرمین میاں امجد رشید نے کراچی میں پریس کانفرنس میں شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلم فیسٹیول میں چند ایک کو خوش کرنے کی کوشش میں فلمی صنعت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
لاہور اور کراچی کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مجوزہ فیسٹیول میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن، فلم ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن، فلم ایگزیبیٹرز ایسوسی ایشن کے کسی بھی نمائندے کو مدعو کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔
میاں امجد رشید نے اپنے ادارے کی فلمی صنعت کے لیے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد بھی فلم ڈسٹری بیوٹر اور فلم ساز تھے۔ ہماری پلاننگ ہے کہ ہم کراچی میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ فلم اسٹوڈیو قائم کریں۔ ہم نے پاکستانی فلموں کے لیے 28؍کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ہم رواں سال میں 3؍فلمیں پروڈیوس کررہے ہیں۔ مشترکہ فلم سازی کی پلاننگ کی ہے۔ ہم نے قومی ہیروز پر بھی فلمیں بنانے کی پلاننگ کی ہے۔ فلمی صنعت سے وابستہ نامور فن کاروں ندیم بیگ، زیبا بیگم، بہار بیگم، ریما، جاوید شیخ، سید نور، کامران چوہدری، ستیش آنند، ندیم مانڈوی والا، سعید رضوی، معمر رانا، مصطفی قریشی، شان، مسعود، غلام محی الدین، وغیرہ میں سے کسی فن کار یا پروڈیوسر، ڈائریکٹر کو مدعو ہی نہیں کی گیا۔ فیسٹیول کے دوران متعدد پینل ڈسکشن بھی ہوئے۔
اگر ان ڈسکشن میں پاکستان کے نامور فن کار بھی شرکت کرتے اور بھارتی فن کاروں، فلم سازوں، ہدایت کاروں کے ساتھ مشترکہ پروڈکشن کے حوالے سے راہ ہموار ہونے کے توقع کی جاسکتی تھی۔ جلد ہی ہم فلمی صنعت کے نمائندوں کا اجلاس منعقد کریں گے، حالاں کہ کراچی میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے 82؍ارکان موجود ہیں، اگر ہمارے نمائندوں کو مدعو کیا جاتا تو ہم کراچی سے نامزد کرسکتے تھے۔ ہم نے وفاقی حکومت کو اپنے ایک خط کے ذریعے اپنے تمام تر تحفظات سے آگاہ کردیا ہے۔
ہم پاکستانی فلمی صنعت کی تقسیم کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم تقسیم کی اس سازش کو کام یاب نہیں ہونے دیں گے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ عرصہ دراز کے بعد اب فلمی صنعت کے بحران میں کمی ہورہی ہے۔ اس موقع پر فلمی صنعت کی تقسیم سے فلمی صنعت کو شدید نقصان ہوسکتا ہے ،جو ہم نہیں ہونے دیں گے۔
فیسٹیول، کراچی فلم سوسائٹی کی ایک اچھی کاوش تھی ، جس میں شرکت کرنے والی شخصیات اور فلمیں قابل ستائش قدم ضرور ہے، مگر اس فیسٹیول کو کراچی تک محدود کرنے سے تمام اقدامات سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔
کراچی فلم سوسائٹی کو اپنی کارکردگی اور غلطیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور فلمی صنعت میں ہونے والی بدگمانی اور روابط کی کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ باہمی اجلاس وقت کا تقاضا ہے تاکہ آئندہ ہونے والے فیسٹیول میں پوری فلمی صنعت بھرپور انداز میں شریک ہوسکے۔
میاں امجد رشید نے مزید کہا کہ اچھی فلم کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ فلم کی کام یابی اس کا اسکرپٹ، عمدہ کہانی اور فن کاروں کی جاندار پرفارمنس ہی فلم کی کام یابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ حالیہ فلم فیسٹیول میں فلمی صنعت کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ پنجاب کو فلم فیسٹیول سے دور رکھ کر فلمی صنعت کے استحکام کو نقصان پہنچایا گیا۔
وزارت اطلاعات نے ماضی میں فلمی صنعت کے عہدیداران کو ملاقات کے لیے وقت دیا گیا، مگر گھنٹوں انتظار کے بعد بھی ملاقات نہیں کی گئی، جب کہ حالیہ فلم فیسٹیول میں صوبائی اور مرکزی حکومت نے غیر رجسٹرڈ سوسائٹی کو فنڈز دیے، ثقافتی پالیسی کا سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ فلم فیسٹیول کے حوالے سے ہمارے شدید تحفظات ہیں، جس کے لیے جلد ہی اجلاس میں ہم آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کامران اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ کراچی میں فلم فیسٹیول ہوسکتا ہے کہ اچھی کاوش ہو مگر جس انداز میں فلمی صنعت کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے اس فیسٹیول کی حیثیت مشکوک ہوگئی ہے۔ کامران چوہدری نے مزید کہا کہ پرائیویٹ طور پر کام کرنے کا ہر ایک کو حق ہے، مگر فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے حکومتی سرپرستی قابل اعتراض ہے۔ رجسٹرڈ ایسوسی ایشن کو نظرانداز کرکے غیر رجسٹرڈ ایسوسی ایشن کو فنڈنگ کی گئی۔ ایسوسی ایشن کا نام پاکستان فلم سوسائٹی ہونا چاہیے تھا۔
کراچی فلم سوسائٹی کے نام سے قیام کا مقصد پنجاب کو نظرانداز کرنا تھا، جن فلم سازوں نے 30/25 سے زائد فلمیں بنائی ہیں، انہیں یکسر نظرانداز کیا گیا ہے بلکہ ہمیں کسی اجلاس میں مدعو بھی نہیں کیا گیا نہ ہی کسی کا مشورہ لیا گیا۔ اسی طرح لاہور کی فلموں کو نظرانداز کیا گیا۔