• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کلامِ ربانی: شب ِ برأت اور لیلۂ مبارکہ کی تفسیر

کلامِ ربانی: شب ِ برأت اور لیلۂ مبارکہ کی تفسیر

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ حٰمٓ (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں) اس روشن کتاب کی قسم،بے شک، ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بارگاہ کے حکم سے، بے شک ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔(یہ) آپ کے رب کی جانب سے رحمت ہے،بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘(سورۂ دخان،آیات:۱تا ۶)

ان آیات میں لیلۂ مبارکہ سے مراد حضرت عکرمہؓ اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک شب برأت ہے۔(روح المعانی )اس لحاظ سے آیات میں ماہِ شعبان کی پندرہویں شب کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔البتہ مشہور تفسیر اس آیت کی اکثر کے نزدیک یہ ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے، شب برأت مراد نہیں، کیوںکہ دوسرے موقع پر ارشاد ہے، انّا انزلناہُ فی لیلۃ القدر کہ ہم نے قرآن لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہاں فرمایاجارہاہے کہ ’’ ہم نے لیلہ مبارکہ میں نازل کیا‘‘ اور یہ ظاہر ہے کہ نزول سے مراد دونوں جگہ نزول دفعۃً ہے تدریجاً نہیں، کیونکہ وہ تو23 سال کے عرصے میں ہوا، اوردفعۃً نزول ایک ہی مرتبہ ہوا ہے،اس لیے لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہوگی، یہ قرینہ قول ہے اس بات کا کہ یہاں بھی لیلۃ القدر ہی مراد ہے،لیکن ایک قول بعض کا یہ بھی ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد شب برأت ہے، باقی رہا یہ اعتراض کہ اس بات سے تو لازم آتا ہے کہ دفعۃً نزول دو مرتبہ ہوا، تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ دفعۃً نزول دو مرتبہ بھی اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک رات میں حکم کا نزول ہوا اور دوسری میں اس کا وقوع ہوا، یعنی شب برأت میں حکم ہوا کہ اس دفعہ رمضان میں جو لیلۃالقدر آئے گی، اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر لیلۃ القدر میں اس کا وقوع ہوگیا۔(یہ تفسیردرمنثور میں بروایت ابن جریر ابن المنذر و ابن ابی حاتم حضرت عکرمہ سے منقول ہے)

اس رات میں بڑے بڑے امور انجام پاتے ہیں یعنی اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں، ان کے نام لکھ دیے جاتے ہیں،اور جنہوں نے مرنا ہے ان کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، یعنی بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں اور مخلوق کو اس سال جو رزق ملنا ہوتا ہے ،وہ بھی اسی شب میں لکھ دیا جاتا ہے۔

علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی تحریر فرماتے ہیں کہ ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شب برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔(تفسیر قرطبی)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ اس میں کوئی نزاع نہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں مذکورہ امور انجام پاتے ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح)

علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی حنفی تحریر فرماتے ہیں،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تمام امور کے فیصلے تو شب برأت میں ہوتے ہیں اور جن فرشتوں نے ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے تو رمضان کی ستائیسویں شب یعنی لیلۃ القدر میں ان کے سپرد کیے جاتے ہیں۔(روح المعانی)

تازہ ترین
تازہ ترین