• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمر شریف

اسٹیج ڈراموں میں جدید رجحانات متعارف کرانے والے فرقان حیدر ،آج کل پاکستان سے بہت دُور امریکا میں زیر علاج ہیں، جہاں ان دِنوں وہ اپنی بیماری سے جواں مردی سے لڑ رہے ہیں۔ کافی عرصہ بعد سیدفرقان حیدر سے گفتگو ہوئی، تو انہوں نے ماضی کے دریچے کھول دیے، جس کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان کی اسٹیج ڈراموں کے حوالے کی گئی گراں قدر خدمات کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ کیا شہر کراچی تھا، آدم جی آڈیٹوریم، ابراہیم علی بھائی آڈیٹوریم، ریو آڈیٹوریم، ہاشو آڈیٹوریم میں اسٹیج ڈرامے ہوتے تھے۔ تھیوسوفیکل ہال، کٹرک ہال کے بعد آدم جی آڈیٹوریم اسٹیج ڈراموں کا ابتدائی دور تھا، جب فرقان حیدر نے اس شعبہ میں قدم رکھا، تو تھیٹر کی کایا ہی پلٹ گئی، پہلے معین اختر مرحوم اور عمر شریف جیسے مقبول فن کاروں کو اپنی ٹیم میں شامل کرکے اسٹیج کو بام عروج پر پہنچایا، پھرلاہور سے فلم اسٹاروں کو بلا کر اسٹیج پر کام کرانے کی روایت ڈالی۔ 

ہمیں یاد ہے کہ یہ وہ دور تھا ، جب بڑے بڑے فن کار بھی فرقان حیدر کے ڈراموں میں کام کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے، اسی طرح شہر کے بڑے بڑے لوگ ان کے ڈراموں کے ٹکٹ کے حصول کے لیے سفارش کراتے تھے، تاکہ ڈرامے دیکھ سکیں۔ فرقان حیدر سے جب ان کے نصف صدی کے کیرئیر کے حوالے سے گفتگو کی تو انہوں نے ماضی کے دریچے کھولتے ہوئے بتایا کہ67 میں ابراہیم نفیس بھائی فلم ’’حسینہ کیا چاہے‘‘ بنارہے تھے، میں انہیں اسسٹ کررہا تھا، ایک دن انہوں نے مجھے آدم جی آڈیٹوریم بھیجا، وہاں میمنی ڈراما ’’گھر جا نہ گھاٹ جا‘‘ چل رہا تھا۔ اس میں ابراہیم راز، انور جبیں وغیرہ کام کررہے تھے۔ اس طرح پہلی بار میں نے اسٹیج ڈراما دیکھا، تو ذہن میں خیال آیا کہ میں بھی ڈراما بناسکتاہوں۔ میں فلم ایڈیٹنگ کا کام جانتا تھا۔ 71 میں ڈھاکا فال کے بعد وحید مراد، ابراہیم نفیس بھائی لاہور چلے گئے، میں نے اپنا ایڈیٹنگ ہائوس ناظم آباد میں اپنے گھر میں قائم کرلیا۔ اسی دوران میری ملاقات کنور خورشید سے ہوگئی ۔ وہ ان دنوں ہدایت کار صمد یار خان کے ساتھ کام کررہے تھے۔ کنور خورشید اچھے ڈرامے رائٹر تھے، وہ ایک اسکرپٹ لکھ کر میرے پاس آئے۔ اُس زمانے میں ہم نے فن راما کے نام سے ڈراما پروڈکشن ہائوس قائم کیا۔ 

ہمارا پہلا ڈراما کرائے کا ٹٹو (ون ڈے) شو کیا، جس میں اس وقت انور کمال، تسنیم، سلطان جیلانی، نذیر جولی، اسرار شیرازی نے کام کا۔ اس زمانے میں فری شو ہوا کرتا تھا، ڈرامے کو شائقین نے بہت پسند کیا، جس کے بعد ہمیں دوسرا ڈراما کرنے کی ہمت ہوئی، جو ہم نے ’’مہمان کیسے کیسے‘‘ کے نام کیا، جس میں سلومی کو بھی متعارف کرایا۔ اس ڈامے کو ہم نے اس دور کے بعض بینکوں کے سالانہ فنکشن میں بھی پیش کیا۔ معین اختر بھی ان دنوں اسٹیج پرکامیڈی کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ہم نے مل کر ایک ڈراما ’’مصیبت در مصیبت‘‘ (ون ڈے) پیش کیا، جسے سب نے پسند کیا، پھر قوی سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے پہلا کمرشل ڈراما ’’بچائو معین اختر‘‘ پیش کیا، جس کے آدم جی آڈیٹوریم میں 15شوز کیے۔ پہلی بار ٹکٹ پر ڈراما دیکھنے کی روایت ہم نے ہی ڈالی تھی، جس کے بعد بہروپیہ معین اختر، ٹارزن معین اختر، بس جانے دو کے ذریعہ ہم نے کمرشل ڈراموں کو مقبول بنادیا تھا۔ 

اسی دوران عمر شریف نے ڈراما ڈولی میں کام کیا، میں وہ ڈراما دیکھنے گیا تھا، ڈرامے کے اختتام پر پرویز مظہر کو بھی اسٹیج پر بلایا۔ میں بھی اسٹیج پر گیا۔ میں نے اسکرپٹ اور عمرشریف کی اداکاری کی تعریف کی، اسٹیج پر سیٹ میں ایک خرابی ہوگئی تھی، ڈولی کا دروازہ چھوٹا رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے ڈولی پھنس گئی تھی، اس موقع پر عمر شریف نے کہا کہ ناظم آباد والوں نے ہمارا ڈرامہ خراب کردیا، جب کہ اس ڈرامے میں کچھ ٹیکنیکل کمزوریاں تھیں، جس کی میں نے نشان دہی کی۔

معروف ہدایت کار، سید فرقان حیدر کے اوراقِ زیست

 فرقان حیدر نے کراچی میں اسٹیج ڈراموں کی تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ اس دور میں خواجہ معین الدین، علی احمد، صمدیار خان اور میمنی ڈراموں میں عثمان میمن وغیرہ کام کررہے تھے۔ خواجہ معین الدین کے ڈراموں میں ابراہیم نفیس کام کرتے تھے اس دور میں لال قلعے سے لالو کھیت، بازی گر، تگڑم، تعلیم بالغان وغیرہ تھیوسوفیکل ہال اور کٹرک ہال میں ہوا کرتے تھے۔ ’’ڈولی ‘‘ میں عمر شریف کے کام کو پسند کیا گیا ت۔ ایک روز عمر شریف میرے گھر آئے کہ آپ کی ٹیم میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ میں نے کہاکہ کسی بڑے کو لےکر آئو، دوسرے روز عمر شریف والدہ کو ساتھ لےکر آئے۔ ان کی والدہ نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہی کہا کہ فرقان ننھے کو ایکٹر بنادو۔ وہ عمر شریف کو ننھے کہتی تھیں۔ عمر شریف ایک اسکرپٹ لکھ کرلائے۔ میں انہیں، معین اختر کے پاس لے گیا۔ 

معین نے اسکرپٹ کو پسند کیا، پھر مسئلہ مین رول کا آیا۔ عمر شریف کا کہنا تھا مین رول انہیں دیا جائے، مگر میں نےکہا کہ مین رول معین اختر ہی کریں گے۔ آپ صرف ایکٹر بن جائو، اس کے25 شوز کیے۔ 15شوز کے بعد کی تاریخ عثمان میمن کے پاس تھیں۔ تو ہم نے ’’بائیونک سرونٹ‘‘ کے 7شوز شام7 بجے کیے۔ 10بجے شب عثمان میمن کے ڈرامے کا شو ہوتا تھا۔ اس طرح ایک دن میں دو شوز کی روایت بھی ہم نے شروع کی۔ اس کے بعد عمرشریف نے ڈراما، بہرو پیا معین اختر لکھا، یہ ڈرامہ بھی ہٹ ہوگیا۔ اس میں عمرشریف بطور رائٹر اور اداکار مقبول ہوگئے۔ ان دنوں امین غوری اور سکندر اقبال بھی ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ اس طرح قافلہ آگے چلتا رہا، اسی دوران تھیٹر کمرشل ہوگیا تھا۔ آدم جی ہال میں ڈرامہ بند کرادیےگئے، اس دوران سینما بزنس زوال پذیر ہورہا تھا۔

ریو سینما کو ہم نے ڈراما ہال میں تبدیل کردیا۔900 سیٹیں تھیں 81میں ہمارا مشہور ڈراما بکرا قسطوں پر ریو آڈیٹوریم میں پیش کیا، جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، جب اس ڈرامے کی وڈیو ریکارڈنگ کا پلان کیا گیا، توعمرشریف اور معین اختر نے ریکارڈنگ کرانے سے انکار کردیا۔ ان کا موقف تھا کہ وڈیو پر ڈراما آجائے گا، تو ہال میں کون دیکھنےآئے گا،جب کہ میرا ویژن تھا کہ وڈیو کے ذریعے پاکستانی ڈرامے اور فن کاروں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگی۔ بکرا قسطوں پر پارٹ نمبر1 میں وسیم عباس، شیبا بٹ، فاروق شیراز نغمہ بیگم اور ثنا نے کام کیا، جب کہ پارٹ 2 میں شکیل صدیقی، روحی صنم، سلیم آفریدی، سلمٰی ظفر، نعیمہ گرج شامل تھے۔ پھر پارٹ 3پیش کیا گیا، 92 سے 2000 تک کراچی کے نامساعد حالات کے باوجود ہم ڈرامے پیش کرتے رہے۔ 

معین اختر پارٹ 3تک بکرا قسطوں پر کاحصہ رہے، پارٹ4 عمر شریف نے خود کیا۔ معین اختر اس کا حصہ نہ تھے، اب پارٹ 5 کی ابتدائی تیاری جاری ہے، عمر شریف سے بات ہوئی ہے کہ ہم اس سیریز کو 5پارٹ میں ختم کردیں گے۔ میں15 رمضان المبارک تک کراچی آنے کی پلاننگ کررہا ہوں تاکہ عید کے موقع پر بکرا قسطوں پر 5 پیش کیا جا سکے، ایک زمانے میں ڈراما ’’بڈھا گھرپر ہے‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ صبا وڈیو کے پردیسی نے ہمارے ڈرامے کے عوض بھارتی فلم شہنشاہ امپورٹ کی تھی۔ شہنشاہ اور بڈھا گھر پر ہے، بیک وقت ریلیز کیے گئے، عمرشریف اور میں صبا وڈیوپر موجود تھے، ہمارے ڈرامے نے سیلز کے ریکارڈ قائم کردیے، فلم شہنشاہ سے زیادہ وڈیو کیسٹ فروخت ہوئیں۔ 

معین اختر جیسا کمیٹڈ انسان میں نے نہیں دیکھا۔ عمر نے ڈراما ’’مسٹر 420‘‘ کے نام سے کیا، خاصہ مقبول ہوا۔ معین اختر نے پارٹنر شپ میں ڈراما ’’مصیبت در مصیبت‘‘ کیا کوئی تحریری پارٹنر شپ نہیں تھی، مگر حساب کتاب بالکل صاف تھا۔ معین اختر بلا شبہ بہت بڑا فن کار اور انسان تھا۔ اس جیسا فن کار پیدا نہیں ہوسکتا۔ محسنوں کی عزت کرتا تھا۔ سکندر صنم بھی بلاشبہ باصلاحیت فن کار تھا۔ میں سکندر صنم کو لےکر معین اختر کے گھر گیا، تومعین اختر کا پہلا تاثر اچھانہ تھا۔ میں نے کہا کہ موقع دو اچھا اداکار ثابت ہوگا۔ بے بیا معین اختر، آئو سچ بولیں، ٹارزن معین اختر جیسے کام یاب ڈرامے پیش کیے، ہمارے ہر ڈرامے میں معاشرے کے لیے پیغام ہوتا تھا اور ہم کرنٹ افیرز کو ڈرامہ کا موضوع بناتے تھے۔ میں نے 250 سے زائد ڈرامے کیے۔ آج امریکا میں بھی میری پہچان، ماضی کے ڈرامے بنے ہوئے ہیں۔‘‘

اسٹیج ڈراموں کو رقص سے کیا نقصان ہوا؟ اس بارے میں فرقان حیدر نے بتایا کہ ڈرامے کی سیچویشن میں اگر کسی گانے یارقص کی ضرورت ہو تو شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر گانے اور رقص کو آئٹم سونگ کے طور پر شامل کرنا تھیٹر کے مزاج کے خلاف ہے۔ کراچی میں لیاقت سولجر نے اسٹیج ڈراموں میں رقص کی ابتدا کی ۔ رینا صدیقی کے رقص شامل کیے گئے۔ کراچی اسٹیج کے شائقین کوبھی رقص اور گانوں کا عادی بنایا گیا، جس کی وجہ سے ڈراما شائقین کامزاج تبدیل ہوتا چلا گیا، اب وہ ڈرامہ کے دوران گانے کا مطالبہ کرنے لگتے۔‘‘ فرقان حیدر نے بتایا کہ میں نے میمنی، اردو، پنجابی ڈرامے کئے ہیں، پنجابی ڈراما ’’آج آکھاں وارث شاہ‘‘ میں لاہور سے جمیل بسمل، خالد عباس ڈار، افضال چٹا، بشریٰ انصاری نے کام کیا۔ تماشہ ہی تماشہ‘‘ میں معین اختر،خالد عباس ڈار، شیبا حسن شامل تھے۔ 

خالد عباس کا مقبول ڈراما بڈھا ٹرنک اور بوسکی بھی ہم نے کراچی میں پیش کیے۔ عمرشریف اور معین اختر کی مثال کچھ اس طرح دی کہ معین اختر اسکرپٹ کے تحت بولتے تھے، بہت ہی جینیئس اداکار تھا، جب کہ عمر شریف جب اسٹیج پر برجستہ اور فی البدیہ بولتے ہیں۔ انور مقصود سوچ کرلکھتے ہیں۔ عمرشریف کو اپنی قدر کرنی نہیں آئی کہ وہ کتنا بڑا اداکار ہے۔ برصغیر میں اس سے بڑا اداکار نہیں ہے ، بہت ہی ٹیلنٹڈ فن کار ہے، مگر جس طرح معین اختر کو اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کا فن آتا تھا، عمرشریف نے اپنے آپ کو ضائع کیا، بہت ہی مطمئن ٹیلنٹڈ اسٹار ہے۔ ‘‘ فلم بنانے کا تجربہ کیسا رہا؟ تو انہوں نے کہا کہ تجربہ بہت اچھا رہا، مگر فلمی صنعت میں لوگ اچھے نہیں ہیں،سب مفادات میں جکڑے ہوئےہیں، عمر شریف اور غلام محی الدین نے کہا کہ جاوید فاضل کے پاس کام نہیں ہے، میں نے ان سے فلم ڈائریکٹر کرانے کا فیصلہ کیا۔ 

سید نور سے کہانی لکھوائی اور ان کو منھ مانگی رقم ادا کی۔ لاہور فلمی صنعت کی تباہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پروفیشنل کی کمی ہے۔ میری پہچان ڈراما ہے ۔ پنجاب میں ڈرامے کو آرٹس کونسل مانیٹر کرتی ہے۔ باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے، مگر کراچی میں کوئی طریقہ کار نہیں ہے، جس کے پاس پیسہ ہے، وہ خود ہی ہدایت کار، کہانی نویس، پروڈیوسر اور پھر اداکار بھی ہے۔ نان پروفیشنل افراد نے پیسے کے بل بوتے پر اسٹیج کو تباہ کردیا ہے۔‘‘

شہناز صدیقی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرقان حیدر نے کہا کہ وہ بہت ہی معصوم انسان تھا، دوستوں کا دوست۔ ‘‘میں نے دو جرمن ڈرامے ترجمے کے بعدکراچی اور لاہور میں کیے، جرمن ڈراما ’’ڈیئر سر بروخاں کاروگر ‘‘ کو ’’جگ بیتی‘‘ کے نام کیا، کاسٹ میں امتیاز احمد محبوب ٹو، زیبا شہناز، سلومی، سبحانی بایونس، جب کہ دوسرا ڈراما ’’لوانیر ودھ ویڈنگ بیلز‘‘ فسانہ محبت ترانہ شادی، کے نام کیے، جس میں معین اختر، عمرشریف، فوزیہ عنبرین، سلیم اس ڈرامے میں عمرشریف نے سنجیدہ کردار ادا کیا، جس کی طارق عزیز نے بہت تعریف کی۔ ڈراما جگت بازی نہیں تھی۔ ہمارے بعض ڈرامے بھارت میں نقل کئے گئے۔ میں بھارت گیا، وہاں میں نے محسن حسن خان اور رینا خان سے ملاقات کی، پھر مستان خان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے میرے ڈرامے پر شو میں اعلان کرایا کہ یہ فرقان حیدر کا ڈرامہ ہے ۔ 

امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’’ وی آئی پی روم‘‘ بہت مقبول ہوا۔ میں نے شوبز میں آنے کا فیصلہ اس وجہ سےکیا، شوبز کی دنیا کی بات ہی نرالی ہے، میرے والد اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے، 65 میں ریٹائرڈ ہوگئے ایک سال پنشن کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہے، نفیس بھائی ’’رات کی راہی‘‘ میں کام کرچکے تھے۔ ریڈیو کی وجہ سے بھی ان کی پہچان تھی،۔ ایک دن نفیس بھائی نے والدہ سے کہا کہ ابا سے کہو مجھے ساتھ لے جائیں۔ ابا شوبز پسند نہیں کرتے تھے۔‘‘ فرقان حیدر بلاشبہ ایک باصلاحیت ہدایت کار ہیں، جنہوں نے 50سال سے زائد شوبز کی دنیا کو دیے ہیں۔ ان دنوں وہ امریکہ میں مقیم ہیں اور عیدالفطر کے موقع پرکراچی میں اسٹیج ڈراما کرنے کی پلاننگ کررہے ہماری دعاہے کہ وہ اپنے شیڈول کے مطابق رمضان المبارک میں کراچی آئیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق عیدالفطر پر ایک خوب صورت ڈراما پیش کریں۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین