تحریر:محمد فاضل ضیاء…لوٹن (پہلی قسط) قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ مذکور ہوا ہے،، ویسے تو مصر کے کئی بادشاہ ایسے ہوئے جنہیں فرعون کہتے تھے لیکن جس سے واسطہ موسیٰ علیہ السلام کو پڑا اس فرعون کا نام ولید بن معصب بن ریان تھا۔قرآن نے اسے ’فرعون ذی الاوتاد’ یعنی میخوں یا کلّوں والا فرعون کہا،عربی زبان میں وتد میخ یا کلّے کو کہتے ہیں، اوتاد وتد کی جمع ہے۔ اغلب ہے کہ اس کے اقتدار کے گاڑے گئے کلّوں vnnvvvvcccx'کی وجہ سے اسے قرآن میں ذی الاوتاد کہا گیا ہے۔ اردو میں ہم نہیں کہتے کہ فلاں کو کیا فکر ہے اس کا کلّہ مضبوط ہے؟ یہ بہت ظالم حکمران تھا،اپنے تمرد کی وجہ سے خود کو خدا کہلواتا تھا۔مصر میں اس وقت دو قبائل تھے، نبطی اور قبطی، نبطی بنی اسرائیل تھے اور اس کو بتایا گیا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری بادشاہت کو للکارے گا اور تجھے اور تیرے پیروکاروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا! چنانچہ فرعون نے نبطیوں کا قتل شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ اسی کے لوگوں کو احتجاج کرنا پڑا کہ اگر یہ لوگ مار دیئے گئے تو پھر ہمارے کام کاج کون کرے گا؟ واضح رہے کہ بنی اسرائیل اس وقت مصر میں اقامت گزیں ہوئے جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ تھے، قحط کے دوران جب بھائی غلہ لینے مصر گئےتو آپ نے اپنے والدین اور بھائیوں کو بلا بھیجا تھا پھر بنی اسرائیل کے دیگر لوگ بھی گئے اور اس طرح ایک نسل وہاں آباد ہو گئی۔ ان پر مظالم فراعنہ کے دور میں شروع ہوئے،قبطیوں کے احتجاج کے بعد فرعون نے ایک سال بچے پیدا کرنے کی اجازت دی اور دوسرے سال پابندی تھی! جس سال بچے پیدا کرنے کی اجازت تھی اس سال حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال پابندی تھی اس دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئے۔ آپ کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوحانہ تھا، بڑے بھائی ہارون علیہ السلام اور بڑی بہن مریم تھیں،یہ وہ مریم نہ تھیں جو بعد میں عیسیٰ علیہ السلام کی ماں بنیں! چنانچہ ڈر کے مارے اور خداوند تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ایک ٹوکرے یا صندوقچہ نما شے میں بچے کو لٹا کر دریائے نیل میں بہا دیا۔ صندوقچہ تیرتا ہوا ایک نہر میں چلا گیا جو نیل سے نکلتی تھی اور فرعون کے گھر کے نیچے سے بہتی تھی۔ جب صندوقچہ نہر میں بہتا ہوا فرعون کے گھر کے قریب پہنچا، فرعون اور اس کی بیوی دونوں اس بہتی ہوئی شے کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے صندوقچہ نہر سے نکالا! خوبصورت بچہ دیکھ کر خوش ہوئے،بیوی نے کہا ہم اسے بیٹا بنائیں گے! موسیٰ علیہ السلام کی بہن مریم جو صندوقچے کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں، دیکھا کہ بھائی ایک محفوظ گھر میں پہنچ گئے! چونکہ دودھ کسی کا نہ پیتے تھے، خدا نے ایسا بندوبست کیا کہ بہن کی وساطت سے انہیں اپنی ماں کا دودھ ہی پینا نصیب ہوا۔ بچپن میں گھسیٹواں کرتے ایک بار گرم چولہے سے انگارا نکال کر زبان پر رکھا، جس سے زبان کے جل جانے کی وجہ سے لُکنت کی شکایت ہوگئی جو زندگی بھر ساتھ رہی۔فرعون کی بیوی جس نے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی، حضرت آسیہ تھیں ، ایک کٹر کافر کی بیوی جو مسلمان تھیں جنہوں نے اللّہ سے جنت میں ایک محل کی دعا مانگی جو قبول ہو گئی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت طاقتور اور نڈر انسان تھے۔ ایک دن بازار گئے، دیکھتے ہیں کہ ایک نبطی، یعنی بنی اسرائیل کا آدمی اور ایک قبطی، قومِ فرعون کا نمائندہ، آپس میں لڑ رہے ہیں،، نبطی قبطی سے مغلوب ہونے کے قریب تھا کہ اُس نے موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی۔ موسی علیہ السلام گئے انہوں نے ایک زوردار گھونسا قبطی کے مارا جو وہیں مر گیا! موسیٰ علیہ السلام منظر سے ہٹ گئے۔ دوسرے دن پھر بازار گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی نبطی ایک اور آدمی سے لڑ رہا ہے،اس نے پھر موسیٰ علیہ السلام سے مدد چاہی، یہ دیکھ کر حضرت کو نبطی پر غصہ آیا، اسے شاید ڈانٹا ہو؟لیکن نبطی نے سوچا میرے قصور کی وجہ سے مجھے ماریں گے، اس نے زور زور سے چیخنا شروع کر دیا کہ کیا آپ مجھے کل والے قبطی کی طرح مار ڈالیں گے؟ یہ بات کچھ اور قبطیوں نے سُن لی اور فرعون کو بتایا کہ موسیٰ نے کل ہمارے آدمی کا قتل کر دیا۔ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے تو آپ نے فرعون کا گھر چھوڑ دیا اور دور کہیں ایسی جگہ جانے کیلئے نکل پڑے جو فرعون کی دسترس سے باہر ہو؟ چلتے چلتے راستے میں مدین آیا، وہاں ایک کنواں تھا، لوگ پانی بھر رہے تھے کچھ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے، وہاں سستانے کیلئے بیٹھ گئے! دیکھا کہ کچھ زور آور لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ بھی جو بعد میں آئے لیکن دو بڑی شرمیلی اور با حیا لڑکیاں الگ کھڑی اپنی بکریوں کو پانی پلانے کی باری کا انتظار کر رہی ہیں! موسیٰ علیہ السلام نے وجہ پوچھی کہ تم پانی کیوں نہیں پلا رہیں تو وہ کہنے لگیں جب یہ لوگ پلا چکیں گے تو ہم پلائیں گے! موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کیا یہاں ایک ہی کنواں ہے؟ لڑکیوں نے جواب دیا نہیں ایک اور بھی ہے جو بند پڑا ہے جس کے منہ پر بہت بھاری پتھر رکھا ہوا ہے یہ کئی لوگ مل کر بھی ہٹائیں تو بھاری ہے! موسیٰ علیہ السلام اُٹھے اکیلے پتھر کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور شاید پانی نکالنے میں لڑکیوں کی مدد کی، جنہوں نے اپنی بکریوں کو پانی پلایا۔یہ لڑکیاں حضرت شیث علیہ السلام کی بیٹیاں تھیں جو مدین میں رہتے تھے اور اللّہ تعالیٰ کے ایک سچے نبی تھے۔انسانی تمدنی تاریخ میں غالباً لکڑی کا کام سب سے پہلے انہوں ہی نے کیا، لہٰذا وہ نجاّر تھے،جب لڑکیاں بکریوں کو پانی پلا کر خلافِ معمول اس دن جلدی گھر چلی گئیں تو حضرت شیث علیہ السلام کو تجسس ہوا؛ پوچھا بیٹا آج جلدی باری کیسے آ گئی؟ بیٹیوں نے جواب دیا اس طرح کا ایک غیرت مند مسافر تھا جس کی کوئی متعین منزل بھی نہیںتھی، اس نے ہماری مدد کی، بچیوں نے اپنے والد کو مزیدبتایا کہ ان کی مشکل وقت میں مدد کیجئے، ٹھکانا دے دیجئے، حضرت شیث علیہ السلام نے بیٹیوں سے کہا کہ جاؤ اس مسافر کو بلا لاؤ؟ بچیاں جا کر بڑے شرمیلے انداز میں موسیٰ علیہ السلام سے کہتی ہیں آپ کو ہمارے ابا جی نے بلایا ہے؟ موسیٰ علیہ السلام ساتھ چلتے ہیں، حضرت شیث علیہ السلام حال احوال پوچھنے کے بعد انہیں اپنے گھر ملازم رکھ لیتے ہیں جن کی ذمہ داری بکریاں چرانا تھا، بعد میں اپنی بیٹی کی شادی موسیٰ علیہ السلام سے کرا دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی آٹھ یا دس سال سسرال میں رہے۔ پھر ایک دن اپنی بیوی اور کچھ بکریاں لے کر وطنِ مالوف کی طرف روانہ ہوئے، عازمِ سفر مصر کی طرف تھے، فلسطین سے رات کے وقت گزر رہے تھے، سخت سردی تھی، طورِ سینا نزدیک تھا کہ پہاڑ کے دامن سے جلتی ہوئی آگ نظر آئی، آپ نے اہلیہ سے کہا ٹھہرو میں جا کر آگ کا کوئی انگارا لے آؤں، آگ جلا کر تاپتے ہیں چونکہ راستہ بھی بھولے ہوئے تھے، کہا کہ ان سے راستہ بھی معلوم کر لوں شاید وہ جانتے ہوں،موسیٰ علیہ السلام جونہی نزدیک گئے تو آواز آئی موسیٰ اپنی پاپوش اتار کر آئو میں تمہارا رب ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام جوتا اتار کر آگے بڑھتے ہیں۔ اللّہ رب العزت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جا کر اسے توحید کی تبلیغ کا حکم صادر فرماتے ہیں کہ فرعون نے زمین پر فساد پھیلا رکھا ہے، خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے! جاؤ اور اسے خدائی قہار کے آگے جھکنے کا حکم دو، مزید یہ کہ بنی اسرائیل پر ظلم سے روکنا تھا،بتاؤ کہ آپ اللّہ کے پیغمبر ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے گزارش کی کہ ان کی زبان میں لُکنت ہے اس لئے ان کے بڑے بھائی ہارون کو ان کا مددگار مقرر کیا جائے،چنانچہ ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت مل گئی! موسیٰ علیہ السلام نےگزارش کی کہ اگر فرعون مجھ سے کوئی مامور من اللّہ ہونے کی وجہ سے کوئی دلیل یا معجزہ مانگے تو؟ اللّہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی لاٹھی زمین پر رکھو، جب رکھی گئی تو بہت بڑا اژدھا بن گئی۔اللّہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ اپنی لاٹھی کو اُٹھا لو تو موسیٰ علیہ السلام نے اس پر اپنی چادر ڈال کر سانپ کو پکڑا جو ہاتھ میں آ کر دوبارہ لاٹھی بن چکی تھی، پھر فرمایا اپنا غالباً دایاں ہاتھ بغل میں ڈال کر باہر نکالو، موسیٰ علیہ السلام نے ایسا کیا تو ہاتھ چمک رہا تھا،چنانچہ نبوت کے مقام پر سرفراز کرنے کے بعد اللّہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ جائو جاکر فرعون کو نرمی سے توحید کی دعوت دو، شاید کہ وہ راہ راست پر آ جائے اور اسے بنی اسرائیل پر مظالم بند کرنے کی ہدایت دو اور کہو کہ وہ انہیں آزاد کرے، یہ حکمِ خداوندی پانے کے بعد موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو لے کر پہلے تو اپنی قوم کے پاس جاتے ہیں، انہیں تسلی دے کر کہ ان کی آزمائش کے چند ہی دن رہ گئے ہیں پھر فرعون کے دربار میں تبلیغ حق کیلئےجاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام اسے کہتے ہیں کہ ہم اللّہ کے پیغمبر ہیں اور تمہیں خدا کو یکتا ماننے کی دعوت دیتے ہیں، اس پر وہ ٹھٹھے کرنے لگا، کہنے لگا خدا تو میں ہوں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ خدا وہ ہے جو زندگی اور موت دینے پر قادر ہے۔ وہ کہتا ہے لو یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں۔ دو آدمی بلاتا ہے کہتا ہے اسے میں زندہ رکھوں گا اور دوسرے کو موت دونگا، وہ ایسا ہی کرتا ہے، موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں اللّہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے طلوع کرکے مغرب میں غروب کرتا ہے اگر تُو خدا ہے تو مغرب سے طلوع کر کے مشرق میں غروب کر کے دکھا! اس پر فرعون لا جواب ہو جاتا ہے! موسیٰ علیہ السلام سے پوچھتا ہے کہ پیغمبروں کے ہاں تو معجزات ہوتے ہیں، کچھ تیرے پاس بھی ہے، وہ مذاق کر رہا تھا! موسیٰ علیہ السلام نے اپنا ہاتھ بغل میں ڈالا جسے جب نکالا تو سورج سے زیادہ چمک رہا تھا، پھر عصا زمین پر ڈالا جو اژدھا بن گیا۔ فرعون نے کہا یہ تو جادو ہے؟ اچھا فلاں دن آؤ، میں بھی اپنے جادو گروں کو بلاؤںگا ان سے مقابلہ کر لینا، چنانچہ مقررہ دن ملک کے نامور جادوگر آگئے ، موسی علیہ السلام گئے، فرعون کے جادوگر اپنے ساتھ رسیاں لائے تھے، فرعون کے حکم پر انہوں نے وہ زمین پر پھینکیں جو جادو کے اثر سے سانپ بن کر رینگنے لگیں۔ موسیٰ علیہ السلام قدرے پریشان ہوئے فوراً وحی نازل ہوئی، اپنے عصا کو زمین پر پھینکو! جب موسیٰ علیہ السلام نے عصا زمین پر رکھا وہ ایک بہت بڑا اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا، جادوگر سمجھ گئے کہ موسیٰ علیہ السلام جادوگر نہیں بلکہ اللّہ کے سچے نبی ہیں لہٰذا وہ فوراً ان پر ایمان لا کر مسلمان ہو گئے، فرعون کہنے لگا تم نے میری اجازت کے بغیر ہی اسے پیغمبر مان لیا، لہٰذا اس نے انہیں قتل کرنے کا حکم د ےدیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دعوتِ توحید دی کہ ایک خدا کو مانو،، فرعون ٹھٹھے کرتا رہا بالآخر جب حضرت اس سے تنگ ہوئے تو بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کا کہا، وہ نہ مانتا تھا، اللّہ نے فرعون اور اس کی قوم پر مختلف عذاب نازل فرمائے،ان میں سے ایک پینے والے پانی کے خون بن جانے کا تھا، ایک ہی چشمے سے پانی لاتے جونہی قومِ فرعون کے افراد پانی اپنے لگن میں لیتے تو وہ خون بن جاتا، جبکہ بنی اسرائیل کے برتنوں میں وہ عام پانی ہی رہتاحتیٰ کہ وہ بنی اسرائیل سے پانی مانگتے جونہی اپنے برتن میں ڈالتے تو وہ خون بن جاتا، بالآخر تنگ آکر فرعون نے موسی ٰعلیہ السلام کا بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کا مطالبہ مان لیا۔