ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی 94 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں ۔
مزاح کا عہد یوسفی کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا. وہ گزشتہ کئی ماہ سے نمونیے میں مبتلا تھے اور کلفٹن کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے ۔
انہیں گزشتہ روز ایک نجی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جبکہ ان کی طبیعت مزید بگڑنے کے باعث انہیں وینٹیلٹر پر منتقل کردیا گیا تھا ۔
مشتاق احمد یوسفی کی نماز جنازہ کل بروز جمعرات بعد نماز ظہر سلطان مسجد ، ڈیفنس میں ادا کی جائے گی۔
مشتاق احمد یوسفی 4ستمبر 1923کو ریاست راجستھا ن کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے تھے ۔
انہیں حکومت پاکستان میں ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔
وہ تقسیم کے بعد کراچی آئے تھے اور بینکنگ کے شعبے سے وابستہ رہے ،ان کی مزاح پر 5 کتابیں شائع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہیں ۔ جن میں چراغ تلے (1961ء)، خاکم بدہن (1969ء)، زرگزشت (1976ء)،آبِ گم (1990ء)،شامِ شعرِ یاراں (2014ء) شامل ہیں۔
انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم-اے کیا جس کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔
تقسیم ہند کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی۔
ا ن کے والد ریاست کے پولیٹیکل سیکریٹری تھے اور جے پور کے پہلے مقامی مسلمان تھے جو گریجویٹ ہوئے۔
سن 1956ء میں یوسفی صاحب پاکستان آگئے اور مقامی بینک میں ملازمت شروع کی اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر بن گئے۔
مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1900ء میں مضمون’صنف لاغر‘ سے شروع ہوتا ہے جو لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ ’سویرا‘ کی زینت بنا۔ اس طرح مختلف رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔