ایک دور وہ بھی تھا، جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات شروع کیں تو ریڈیو پاکستان کے منجھے ہوئے اسکرپٹ رائٹرز اور لب و لہجے پر عبور رکھنے والے فن کاروں نے ٹیلی ویژن کو اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے مالامال کیا اور اب ایک زمانہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ڈراموں کی خُوب صورت، ناظرین کے دلوں کی دھڑکن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اداکارائیں پاکستان فلم انڈسٹری کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوانے کے لیے شبانہ روز محنت کر رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو اب یہ روایت جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ کسی اداکارہ کو فلموں میں کام کرنا ہے، تو وہ پہلے دو، چار ڈراما سیریلز میں مرکزی کردار ادا کرے، پھر فلم انڈسٹری کا رُخ کرے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ٹیلی ویژن ڈراموں کی اداکارائوں نے درجنوں فلموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا جادو جگایا اور شان دار کام یابی اور شہرت حاصل کی۔ باصلاحیت، باکمال، مایہ ناز اداکارہ مایا علی نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ انہوں نے پہلے ڈراموں میں شہرت حاصل کر کے ٹی وی ناظرین کے دلوں پر حکومت کی اور پھر فلموں کی جانب آئیں۔ 27جولائی1989ء کو لاہور میں جنم لینے والی اداکارہ مایا علی نے کوئن میری کالج سے گریجویشن کیا بعدازاں ماس کمیونی کیشن میں ڈگری حاصل کی۔ وہ بہ حیثیت صحافی میڈیا پر کام کرنا چاہتی تھیں، لیکن بچپن سے اداکاری کا شوق انہیں شوبزنس کی جانب لے آیا۔ ابتدا میں انہیں مشکلات کا سامنا رہا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک آڈیشن میں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ٹھان لی تھی کہ وہ شوبزنس کے اُفق پر ستارہ بن کر جگمگائیں گی۔ مایا علی نے بہ حیثیت ’’وی جے‘‘ اپنے کیریئر کا آغاز کیا بعدازاں انہوں نے فیشن انڈسٹری میں بھی کام کیا اور پھر2011ء میں ٹیلی ویژن ڈراموں کی جانب آ گئیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈراما سیریلز میں مختلف کردار ادا کیے۔ انہیں جن ڈراموں میں لاکھوں ٹی وی ناظرین نے پسند کیا، ان میں سب سے مقبول جیو کی ڈرامہ سیریل ’’ایک نئی سینڈریلا‘‘ تھا۔ اس ڈرامے نے مایا علی کو عام ’’وی جے‘‘ سے ٹیلی ویژن انڈسٹری کی سپراسٹار بنا دیا تھا اس کے بعد تو انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سینڈریلا میں انہیں عثمان خالد بٹ کے ساتھ بے حد پسند کیا گیا۔ ’’کھویا کھویا چاند‘‘ میں سوہائے علی ابڑو اور احسن خان کی موجودگی میں خود کو منوایا۔ ’’میری زندگی ہے تو‘‘ میں بھی وہ مینو کے روپ میں احسن خان کے مدِمقابل کاسٹ کی گئیں۔ ’’لاڈوں میں پلی‘‘ میں لاریب کے کردار میں سجل علی کو ٹف ٹائم دیا۔ ’’شناخت‘‘ میں قرۃ العین، ’’ضد‘‘ میں سمن، ’’میرا نام یوسف ہے‘‘ میں ذلیخا، ’’دیار دل‘‘ میں فرح خان اور سب سے اہم ڈراما ’’من مائل‘‘ میں ’’مَنو‘‘ کے کردار نے غیرمعمولی شہرت اور مقبولیت حاصل کر کے بہترین اداکارہ کا لکس اسٹائل ایوارڈ حاصل کیا۔ ڈراما سیریل ’’صنم‘‘ میں عثمان بٹ کے ساتھ ان کی جوڑی نے ایک مرتبہ پھر مقبولیت حاصل کی۔ مایا علی، احسن خان اور عثمان خالد بٹ کے ساتھ زیادہ ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوئیں اور اب وہ پاکستانی سپراسٹار، علی ظفر کے ساتھ 20جولائی کو ریلیز ہونے والی فلم ’’طیفا ان ٹربل‘‘ میں جلوے بکھیرنے آرہی ہیں۔ ٹی وی ڈراموں میں رونے دھونے کے کرداروں سے نکل کر وہ فلم میں رومانس اور ایکشن کرتی دکھائی دیں گی۔ ’’طیفا ان ٹربل‘‘ میں عانیہ کے کردار میں نظر آئیں گی۔ ابھی ان کی ایک فلم ریلیز ہوئی نہیں ہے کہ انہیں ’’سات دن محبت ان‘‘ کے ہیرو شہریار منور کے ساتھ فلم ’’پرے ہٹ لو‘‘ میں کاسٹ کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مایا علی اپنی فلم ’’طیفا ان ٹربل‘‘ کے پروموشن کے سلسلے میں کراچی آئیں تو اس موقع پر ان سے دل چسپ گفتگو ہوئی۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ڈراموں سے فلموں کی جانب آنا کیسا لگ رہا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے پُوری دنیا میں دل چسپی اور توجہ سے دیکھے جاتے ہیں، جب کہ ہماری فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ کام یابی کی جانب گامزن ہے۔ مجھے جب فلم کے ڈائریکٹر احسن رحیم اور علی ظفر نے آڈیشن کے لیے بلایا تو ابتدامیں فیل ہو گئی، کیوں کہ ان دنوں میں اپنے والد کے انتقال کی وجہ سے کافی ڈسٹرب تھی بعدازاں احسن رحیم اور علی ظفر کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے آڈیشن کے لیے ایک اور موقع دیا، تو مجھے کام یابی حاصل ہوئی۔ میں اس موقع پر کافی نروس تھی۔ میں نے سینما گھر میں علی ظفر کی فلم ’’میرے برادر کی دُلہن‘‘ دیکھی تھی۔ وہ کترینا کیف اور عمران خان کے ساتھ جم کر اداکاری کر رہے تھے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ چند برس میں علی ظفر کی فلم کی ہیروئن بنوں گی۔‘‘ ماہرہ خان اور مہوش حیات کی موجودگی میں آپ کی جگہ کتنی بنتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں مایا علی نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ سب اچھا کام کررہی ہیں۔ میرا کسی سے مقابلہ نہیں ہے۔ مجھے فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کئی برسوں سے مسلسل ہورہی تھی۔ میرے پرستاروں اور ٹی وی ناظرین کی جانب سے مجھ پر بہت پریشر تھا، جو ملتا تھا، اس کا ایک ہی سوال ہوتا تھا، آپ کب فلموں میں آرہی ہیں۔ میں ایک اچھے اسکرپٹ کی تلاش میں تھی۔ ماہرہ خان اور مہوش حیات نے فلموں میں اچھا کام کیا۔ میں نے ابھی عیدالفطر پر ماہرہ خان کی فلم ’’سات دن محبت ان‘‘ دیکھی، مجھے وہ فلم بہت اچھی لگی۔‘‘
آپ کو کبھی بالی وڈ سے فلم میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی؟ ’’مجھے کئی بار آفرز ہوئیں، ایک بار میں بالی وڈ سپر اسٹار اکشے کمار کی دعوت پر ممبئی بھی گئی۔ انہوں نے فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سے ملاقات بھی کروائی۔ سب چیزیں فائنل ہوگئیں، لیکن اس دوران دونوں ملکوں کے حالات کشیدہ ہوگئے اور بات شوٹنگ تک نہیں پہنچی۔ میں تو کہتی ہوں فن کو سرحدوں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے فن کاروں کو بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی فلموں میں کام کرنے میں کیا برائی ہے۔‘‘ آپ کی علی ظفر سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟ اس سوال کے جواب میں مایا علی نے بتایا کہ علی ظفر سے میری پہلی ملاقات چار برس قبل موبائل کمپنی کے ٹی وی کمرشل کی شوٹ کے موقع پر ہوئی تھی۔ ان سے تقریباً 8گھنٹے ملاقات رہی۔ اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں رہا۔‘‘ کیا بچپن سے اداکاری کا جنون تھا؟میں گھر میں بھی اداکاری کرتی رہتی تھی۔ امی گھر کا کوئی کام بولتیں تو انہیں اداکاری سے جواب دیتی۔ آئینے کے سامنے مختلف اداکارائوں کی نقل اتارتی تھی۔ فلمیں دیکھنے کا بہت شوق رہا ہے، سینما گھروں میں جا کر فلمیں دیکھنے کا اپنا الگ مزا ہے۔‘‘
ٹیلی ویژن کی سپر اسٹار کو جب فلم میں کام کرنے کی پیش کش ہوتی ہے تو وہ کیا سوچتی ہے؟ ٹی وی اسٹار کا فلم میں کام کرنا ایک رِسک ہے۔ دونوں میڈیم الگ الگ اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ فلم طاقت ور میڈیم ہے۔ ہر فن کار کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پردہ سیمیں پر جلوہ افروز ہو۔‘‘ آپ ڈراموں میں زیادہ تر احسن خان اور عثمان خالد بٹ کے ساتھ نظر آئیں ، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ یہ سوال مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے۔ یہ دونوں فن کار بھی کہتے ہیں کہ آخر ہر ڈرامے میں تم ہماری ہیروئن کیوں بنتی ہو؟ میں اس سلسلے میں اتنا عرض کردوں، اب میں علی ظفر کے بعد شہریار منور کے ساتھ بہ طور ہیروئن سینما اسکرین پر نظرآئوں گی۔‘‘ آپ صحافت کرنا چاہتی تھیں۔ اداکارہ کیسی بن گئیں؟ مایا علی نے بتایاکہ مجھے صحافت ہی کرنی تھی۔ جنگ اور جیو میں انٹرن شپ بھی کی۔ جنگ لاہور کے صحافی مجھے اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ بس نصیبوں کے سامنے کس کی چلتی ہے اور میں فن کارہ بن گئی۔‘‘ آپ نے درجنوں ڈراموں میں سنجیدہ کردار نبھائے، فلم میں زبردست رقص کرتی دکھائی دے رہی ہیں، کیا رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کی؟ فلم میں کام کرنے سے پہلے میں سمجھتی تھی کہ میں رقص تو آسانی سے کر لوں گی، لیکن جب شوٹنگ پر گئی تو رقص کرنا بہت مشکل لگا۔ بالی وڈ کے نامور کوریو گرافر فیروز خان اور ان کی ٹیم نے مجھے ٹرینڈ کیا۔ فیروز خان نے ’’دوستانہ‘‘ فلم میں ’’ماں کا لاڈلہ‘‘ میں زبردست کوریو گرافی کی تھی۔ اُن کی ٹیم کے ساتھ کام کرنا اچھا لگا۔‘‘ فلموں میں آئٹم سونگ کی بہت مانگ ہوتی ہے، لیکن آپ نے تو آئٹم سونگ کے لیے منع کر دیا تھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ آئٹم سونگ کے بغیر بھی فلم سپرہٹ ہو سکتی ہے۔ آئٹم نمبر میں گلیمر اور نامناسب لباس اور لیرکس ہوتے ہیں، اس لیے میں نے منع کیا اور پھر ہم نے نہایت سلیقے سے آئٹم نمبر کے بجائے ڈانس نمبر شامل کیا، جسے فلم کی ریلیز سے قبل ہی پسندیدگی کی سند مل رہی ہے، جہاں میں جاتی ہوں یہی گانا سنائی دیتا ہے۔ میں آئٹم نمبر نہیں کروں گی۔ پاکستان فلم انڈسٹری نے بہت ترقی کی ہے۔ فلموں کے معیار میں تبدیلی سے بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوئی ہے، آسکر ایوارڈ تک پہنچی ہیں۔
ہمیں فلموں کی کہانی اور ڈائریکشن پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ اگر ہم دنیابھر میں بہترین فلمیں قرار دی جانے والی فلموں کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں اکثریت کی کہانی بہت مضبوط تھی۔‘‘ مریم تنویر علی سے مایا علی تک کا سفر کیسا رہا؟ اس سوال کے جواب میں مایا علی نے بتایا کہ جب میں شوبزنس میں آئی تو میں نے سب کو بتایا کہ میرا اصل نام مریم تنویر علی ہے، جب کہ گھر میں سب مایا کہہ کر بلاتے ہیں۔ سب نے کہا کہ مایا علی شوبزنس میں اچھا رہے گا، اس طرح میں مریم سے مایا بن گئی۔ ابتدا میں مجھے بہت مشکلات کا سامنا رہا، گھر سے بھی اجازت نہیں تھی، والد صاحب کو بڑی مشکلوں سے منایا تھا۔ انہوں نے میرے ٹی وی ڈرامے دیکھے تو ان کو میرے کردار اچھے لگے، شروع میں جب پی ٹی وی آڈیشن کے لیے گئی تو انہوں نے فیل کر دیا تھا، پھر خاور ریاض کے پاس فوٹو شوٹ کے لیے گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ تم ابھی بہت موٹی ہو ،بس اس کے بعد میں نے خوب محنت کی اور بے شمار فوٹو شوٹ کیے۔ ماڈلنگ اور ٹی وی کمرشل کیے۔ مجھے ناظرین نے سب سے زیادہ ’’ایک نئی سینڈریلا‘‘ اور ’’من مائل‘‘ میں پسند کیا۔ ’’طیفا ان ٹربل‘‘ میں ایکشن کے ساتھ رومانس بھی کیا۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے کرداروں میں فرق ہوتا ہے۔ مجھے ایکشن فلما کر بہت اچھا لگا۔ عانیہ کا کردار میری فنی زندگی کا سب سے مختلف اور دل چسپ کردار ہے۔ میں شوٹنگ کے دوران خود کو عانیہ ہی سمجھتی رہی ، ویسے میں عام زندگی میں بھی اس کردار سے زیادہ مختلف نہیں ہوں۔‘‘