• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم نواز شریف کی سزا سابقہ وعدالتی فیصلوں سے متضاد نظر آتی ہے،کمال اظفر

کراچی (الیکشن سیل) سابق گورنر سندھ، سابق وفاقی وزیر اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ کمال الدین اظفر نے کہا ہے کہ سابقہ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو مریم نواز شریف کو دی جانے والی سزا ان فیصلوں سے متضاد نظر آتی ہے۔ پاناما لیکس میں مریم نواز شریف کو کس حیثیت میں مجرم ٹھہرایا گیا، یہ ایک قانونی بحث طلب معاملہ ہے کیونکہ اس سے پہلے دو عدالتی فیصلوں میں یہ بتایا گیا کہ اگر ملزم کوئی حکومتی عہدے کا حامل ہو تب ہی وہ ان مخصوص دفعات اور شقوں میں مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔ حکومتی عہدے کے علاوہ بھی تین دوسرے نکات جو کہ گزشتہ فیصلوں میں بیان کئے گئے تھے ان کا اطلاق بھی مریم نوازشریف پر نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 20 ستمبر 2011ء کو غنی الرحمٰن بنام نیب کیس کے فیصلے میں جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس محمود اختر شاہد صدیقی اور جسٹس آصف سعید کھوسہ شامل تھے۔ فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی تحریر میں ان نکات پر روشنی ڈالی۔ جو دوسرے فیصلے میں بیان کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے مقدمے میں محمد ہاشم بنام ریاست پاکستان میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس چوہدری اعجاز احمد اور جسٹس غلام ربانی مقدمہ سن رہے تھے۔ جس کا فیصلہ 30 اپریل 2010ء کو سنایا گیا۔ اس مقدمے میں بھی صراحت سے بتایا گیا کہ ملزم چونکہ پبلک آفس ہولڈر تھا اور اس کے اثاثے اس کی آمدن سے زائد تھے اس لئے ثبوتوں کے بعد اسے مجرم ٹھہرایا گیا۔ اس فیصلے میں بھی چار نکات کو زیربحث لایا گیا کہ ملزم پبلک آفس ہولڈر تھا اور اس کے ذرائع آمدن کے بارے میں ثابت کرنا چاہئے کہ وہ کہاں کہاں سے حاصل ہوئے اور اس کے بعد یہ بھی ثابت کرنا چاہئے کہ اس کے اثاثے اور جائیداد اس کی آمدن سے متضاد تھے اور اس کے اثاثے یا جائیداد اس کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ تھے چونکہ مریم نوازشریف کے پاس کبھی بھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں رہا اس لئے ان دو عدالتی فیصلوں کی روشنی میں مریم نوازشریف کو سزا سنایا جاناان فیصلوں میں بیان کئے گئے نکات سے متضاد ہے۔ اس لئے اس قانونی معاملے کو ازسرنو غیرجانبدارانہ اور ماضی کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں دیکھنے کی اشد ضروزرت ہے تا کہ عدالتی فیصلوں کے تضاد کو ختم کیا جائے۔

تازہ ترین