کراچی ( سہیل افضل ) 2018کے الیکشن میں جہاں قومی سطح پر بڑے اپ سیٹ دیکھنے میں آئے وہاں کراچی کے نتائج نے بھی نہ صرف سب کو حیران کر دیا ،ایک جانب کراچی سے قومی سطح کی پارٹی کی کامیابی نے شہر کراچی کو 3دھائیوں بعد قومی دھارے میں شامل کر دیا ہے ،دوسری جانب پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کا پارٹی کے گڑھ لیاری سے شکست اور پاک سر زمین پارٹی کانتخابات سے کلین سوئپ اخراج،کے ساتھ ایم ایم اے اور اے این پی کی مکمل ناکامی یقیناً ایسی خبریں ہیں جن پر سیاسی تبصرے ہو تے رہے گے ۔ تفصیلات کے مطابق 2018کے انتخابات نے یقیناً کراچی کا سیاسی منظر بدل دیا ہے ،اب کراچی کی پہچان علاقائی سیاست نہیں بلکہ قومی سیاست ہے ،شہر قائد سے ایک جانب تحریک انصاف کے قائد عمران خان نہ صرف خود کامیاب ہو ئے ہیں ،بلکہ ان کی پارٹی یہاں کی نمائندہ پارٹی بن کر ابھری ہے ،لیکن اسکے ساتھ دوسری 2قومی پارٹیوں کے سربراہ ،مسلم لیگ کے میاں شہباز شریف اورپیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی شکست کھا گئے ہیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کراچی کے علاقے لیاری سے شکست کو بڑا اپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے ۔انہیں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 کراچی سے تحریک انصاف کے ایک غیر معروف امیدوار شکور شاد نے شکست دی ہے۔تحریک انصاف کے شکور شاد 52750لیکر کامیاب قرار پائے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول یہاں سے دوسرے نمبر پر بھی نہیں آئے دوسرے نمبر پر یہاں سے تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار رہے جھنوں نے42345 ووٹ حاصل کئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنے گڑھ لیاری سے 39325ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کو بھی کراچی سے تحریک انصاف نے شکست دی ہے اور این اے 249 کراچی غربی سے تحریک انصاف کے فیصل ووڈا نے شہبازشریف کے مقابلے میں 35ہزار344 ووٹ جبکہ میاں شہبازشریف کو 34626 ووٹ مل سکے اس طرح شہبازشریف 718 ووٹوں سے شکست کھا گئےایک اور بڑا اپ سیٹ کراچی وسطی پر متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ عزیزآباد سے تحریک انصاف کے امیدوارمحمد اسلم کی کامیابی ہے ،ایم کیو ایم کے فاوروق ستار کی شکست بھی ایک بڑی شکست سمجھی جارہی ہے ،اہل سیاست کے لیے ایک اور بڑااپ سیٹ سندھ میں اپنا وزیراعلیٰ لانے کے بلند بانگ دعویٰ کرنے والی پاک سرزمین پارٹی کی شکست ہے جسے کراچی کے عوام نے یکسر مسترد کردیا ہے ۔عام انتخابات میں پی ایس پی قومی اور سندھ اسمبلی کی کسی نشست پر تیسری پوزیشن بھی حاصل نہیں کرسکی اور اس کے امیدوار اکثر نشستوں پر ساتویں اور آٹھویں نمبر پر رہے ۔ایم کیو ایم کی وکٹیں گرانے کے دعوے کرنے والے کراچی کے سابق سٹی ناظم نے اپنی جماعت کے قیام کے بعد تواتر کے ساتھ ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔پاک سرزمین پارٹی کو اس کے مخالفین ڈرائی کلیننگ مشین کا نام دیتے رہے ۔پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے بعد کراچی میں ہونے والے کسی بھی ضمنی انتخاب میں پی ایس پی نے حصہ نہیں لیا اور پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال دعویٰ کرتے رہے کہ کراچی والوں کے پاس ان کے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں ہے اور آئندہ عام انتخابات میں وہ نہ صرف کراچی سے کامیابی حاصل کریں گے بلکہ اتنی نشستیں ان کی جھولی میں ہوگی جس کے ذریعہ وہ سندھ میں اپنا وزیراعلیٰ لانے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔مصطفی کمال کے یہ دعوے انتخابات سے ایک روز قبل تک برقرار رہے تاہم 25جولائی کو ہونے والے انتخابات نے پی ایس پی کے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے ۔ان کے مقابلے میں تحریک لبیک پاکستان نے بھی کراچی سے سندھ اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرلی تاہم اپنا وزیراعلیٰ لانے کی دعویدار جماعت کراچی کے کسی قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اتنے ووٹ بھی حاصل نہیں کرسکی کہ اس کا امیدوار ’’ٹاپ تھری‘‘ میں شامل ہوسکے ۔ ان نتائج کے بعد پاک سرزمین پارٹی کو اپنا وجود قائم رکھنا بھی مسئلہ ہوجائے گا ،کراچی سے ایم ایم اے کی صوبائی اسمبلی سے صرف ایک نشست آئی ہے ،جماعت اسلامی کےایم ایم اے میں شامل ہونے کے بعد ان کی جانب سے اہل کراچی کی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آنے کے دعوے کئے جارہے تھے ،کئی اہم رہنما قومی اسمبلی اور صوبائی پر امیدوار تھے لیکن اہل کراچی نے تمام کو مسترد کر دیا انھیںصرف غیر روایتی نشست لیاری سے کامیابی حاصل ہو ئی ہے جو کہ کسی بھی طرح ایم کیو ایم کے بعد متبادل قیادت کے دعووں کی نفی ہےپیپلز پارٹی کے لیے ایک اور بڑا اپ سیٹ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 237 میں بھی شکست ہے ملیر کے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے کیپٹن جمیل احمد خان 33289 ووٹس لیکر کامیاب ہوگئے جبکہ پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ 31907 ووٹ لیکر دوسرے نمبر رہے۔