وہ بھی کیا دن تھے، جب اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا تھا،
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے ایک ہی ہوتے تھے،
ہر کوئی اپنا الو سیدھا نہیں کرتا تھا،
جس کے پاس ایک لاٹھی تھی تو صرف ایک ہی بھینس ہوا کرتی تھی،
آم گھٹلیوں کے دام ملا کرتے تھے،
کھانے کے ساتھ روٹی مفت ملا کرتی تھی،
ہر شحص خوش نظر آتا تھا،
لڑکے ہر اس لڑکی کو باجی کہتے تھے جو انہیں بھائی کہتی تھی،
ڈاکو بھی اسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے تھے ،جہاں اوپر کی کمائی کا بہت مال موجود ہوتا تھا،
گوشت والا بکرے کو اتنا پانی پلاتا تھا کہ بعد میں گوشت میں پانی ملانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی،
کھٹا کھانے کے باوجود کسی کے دانت کھٹے نہیں ہوتے تھے،
بجلی کا بل دیکھ کر کسی پر بجلی نہیں گرتی تھی،
دودھ میں صرف دودھ ہوا کرتا تھا،پانی ملانے کی آپشن خریدنے والے کے پاس تھا کہ جتنا اس کا دل چاہے پانی ملائے،
اس وقت جب بادل گرجتے تھے تو برستے بھی تھے،
سبزیوں کو ہوش میں لانے کے لیے پانی نہیں ڈالا جاتا تھا،
دالیں اتنی اچھی ہوتی تھیں کہ جلدی گل جاتی تھیں،
لوگ اتنے اچھے تھے کہ رسی جلتی تھی تو ساتھ میں بل بھی ختم ہو جاتا تھا،
لوگ سچ بولتے تھے کسی کو شرم سے پانی پانی نہیں ہونا پڑتا تھا،
اس وقت عقل بڑی تھی اور بھینس صرف دودھ دیتی تھی،
لاتوں کے بھوت باتوں سے آرام کے ساتھ مان جاتے تھے۔
اور اب کیا کہوں کہنے کو الفاظ ہی نہیں مل رہے!!
(رانیہ)