انسانی خاکے کی تصویر کشی میں سب سے گہرا رنگ رشتوں کا ہوتا ہے ،جو نہ صرف اس تصویر کو دلکش بناتا ہے بلکہ اس میں روح بھی ڈالتا ہے۔بغیر رشتوں کے انسان ایسے ہے جیسے کوئی انسان بغیر انسانیت کے۔رشتے کشتی کی طرح ہوتے ہیں اگر کشتی کی سارے خدوخال قائم رہیں تو منزل مقصود کے پیرہن سے آراستہ کرتی ہے اور اگر اس کے عناصر بے اعتدالی کا شکار ہو جائیں تو زندگی کے آنچل سے برہنہ کر دیتی ہے۔
رشتے روح سے بنتے اور جسم سے ٹوٹتے ہیں۔رشتے کچی مٹی کے گھڑے کی طرح ہوتے ہیں جو خشک رہے تو ٹوٹ جاتا ہے اور پانی سے بھرا رہے تو زندگی پاتا ہے۔رشتے احساس کے کپڑے سے بنتے ہیں پہنا جائے تو جمال جاں اور اتارا جائے تو وبال جاں۔انسان اور رشتوں کا تعلق ایسے ہے ،جیسے بلبل اور گلاب کا، اگر بلبل گلاب کے لیے نغمہ سنج ہو تو بہار ہے اور اگر گلاب بلبل کے لیے کپکپائے تو خزاں۔زندگی کےاداس ساغر میں رشتے تلاطم کی طرح ہوتے ہیں جب موجیں ٹکراتی ہیں تو ساغر کے وجود کو آشکار کرتی ہیں-
رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو ہم بناتے ہیں اور دوسرے وہ جوہمیں ملتے ہیں.یہ دونوں رشتے احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں جو اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ہر آنے والے نئے رشتے کو اپنے اندر پرولیتی ہے اور اتنی کمزور ہوتی ہے کہ جب ٹوٹتی ہے تو رشتوں سمیت بکھر جاتی ہے.بعض اوقات خونی رشتے خون آلودہ کر دیتے ہیں اور بناوٹی رشتے بنا دیتے ہیں.خونی رشتے خاردار جھاڑی کی طرح ہوتے ہیں جو سائےکےساتھ ساتھ زخم بھی دیتے ہیں اور بناوٹی رشتے موسم کی طرح ہوتے ہیں جووقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔رشتے انسانی زندگی میں کبھی غموں کا بادل تو کبھی خوشیوں کا ساون لے کر آتے ہیں۔
گلوں میں رنگت ہے,بلبل کی نغمگی ہے ,آبشاروں کا ترنم ہے,ہوا کی سرسراہٹ ہے,پرندوں کی چہچاہٹ ہے,کوئل کی کو کو ہے,تاروں کی جھلملاہٹ ہے,چاند کی لوری ہے,رات کا سکوں اور دن کا ہنگامہ ہے یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر رشتے نہ ہوتے۔
(رب نیاز )