• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افسانہ: تلاش

رمانہ تبسم

گوپال اپنی بیوی بچوں کے ساتھ چار پائی پر سویا ہوا تھا کہ تیز آندھی اور گرج کے ساتھ اولے گرنے کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔وہ چارپائی سےاچانک اٹھ کر دروازے پر آگیا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ آندھی اتنی تیز تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ آنکھ میں دھول پڑنے سے اس کی آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں۔ دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھ رگڑ کر بد بدانے لگا ۔سب ہی فصلیں تیار ہو چکی تھیں،کچھ ہی دنوں میں اس کی کٹائی شروع ہونی تھی ۔ آندھی کے ساتھ اس کا دل بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ دالان میں ٹنگی لالٹین زور زور سے ہل رہی تھی، اس نے آہستہ آہستہ دھول بھر ی آنکھیں کھولیں، کھونٹی میں ٹنگا چھاتا نکالا اور لالٹین لے کر باہر جانے لگا۔

’’تمہارا دماغ خراب ہے۔ اتنی تیز آندھی میں کہاں جا رہے ہو؟‘‘

اس کی بیوی گوری نے اس کے ہاتھ سے چھاتا اور لالٹین لے کر دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔

’’کھیت پر فصلیں دیکھنے۔‘‘گوپال نے لالٹین دوبارہ گوری کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’اتنی تیز آندھی اور اولے گرنے میں باہر نکلنے کا ہے۔ آندھی میں لالٹین کہاں جلتی رہے گی وہ تو گھر میں ہی بجھی جا رہی ہے۔ صبح ہوگی تو دیکھ لینا،جو منظور ہوگا وہی ہوگا۔‘‘

گوری نے گوپال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’جب تک صبح ہوگی ساری فصلیں برباد ہو جائیں گی۔ ‘‘گوپال نے اداس لہجہ میں گوری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’دھیرج رکھو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘گوری نے آہستہ سے کہا۔

’’کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ہم کسانوں کی قسمت ہی خراب ہے، دن بھر اپنا خون پسینہ بہا کر کھیتی کرتے ہیں، جب فصلیں تیار ہونے کو آتی ہیں تو اوپر والے کا قہر برسنے لگتا ہے۔‘‘گوپال دوبارہ چارپائی پر آکر لیٹ گیا۔ چارپائی کے پاس بھی چھپر سے پانی ٹپک رہا تھا۔گوری نے بچے کو اٹھا کر دوسری جگہ سلا دیا۔

گوپال بستر موڑکر آدھے کھلے چارپائی پر لیٹ گیا،لیکن بستر موڑتے موڑتے تکیہ کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔

’’ایک کمرہ ہو ۔۔۔۔۔لیکن چھت والا ہو۔‘‘گوپال نے اپنے دونوں گھٹنے پیٹ میں اڑالئے اور بدبداتے ہوئے کہا ، پھر صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ آندھی تھمنے لگی ۔ اولے گرنے کی آواز بھی کم ہو گئی۔ مرغ کی بانگ اور چڑیوں کی چہچہاہٹ نے صبح ہونے کا احساس کرایا۔ وہ جلدی سے اٹھا اور دھوتی موڑتے ہوئے تیز قدم اٹھاتا کھیت کی طرف جانے لگا۔گوپال کو باہر جاتے ہوئے دیکھ کر گوری بھی اس کے پیچھے نکل پڑی ۔

راستے میں آم ،لیچی کے درخت گرے ہوئے تھے، جس سے کھیت تک پہنچنے میں کافی پریشانی ہو رہی تھی۔ گوپال نے گوری کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔کسی طرح گوپا ل اور گوری کھیت تک پہنچے ۔کھیت میں فصلوں کی حالت دیکھ کر گوپال کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار گرنے لگے ۔ نیم پختہ گیہوں کی بالی لگے پودے زمین پر گرے ہوئے تھے،جو پانی میں ہونے کی وجہ سے اٹھ نہیں پا رہے تھے۔ بارش سے پوری فصلیں برباد ہو چکی تھیں۔گوپال گیلی مٹی میں لتھڑی گیہوں کی فصل کو دیکھتا، اور کبھی دلہن اور تلہن کی فصلوں کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا ، وہ مایوس ہو کر فصلوں کے بیچ بیٹھ گیا۔

’’کیاسرکار اس کا معاوضہ دے گی ؟‘‘اس نے فصلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوری سے کہا۔ گوری اسے کسی طرح سمجھا بجھا کر کھیت سے گھر لے آئی۔ ادھر بچے ماں کو گھر میں نہ پاکر بے تحاشہ رو رہے تھے۔

’’چپ صبح ہوئی نہیں کہ ان لوگوں کا ریںریں شروع ہو گیا۔‘‘گوپال نے بچوں کو جھڑکتے ہوئے کہا۔ اس کی جھڑک سن کر بچے اور زور سے رونے لگے۔

’’بچوں کو کیوں جھڑکتے ہو؟ انہیں کیا معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘‘گوری نے گوپال کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’گوری ۔۔۔۔۔!اس وقت ان لوگوں کو کسی طرح چپ کرائو۔‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا،جبکہ گوپال اپنے بچوں کو بے انتہا پیار کرتا تھا، لیکن اس وقت اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا اور کوئی بھی چیز اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

گوری نے رات کی بچی باسی روٹی نمک تیل کے ساتھ لپیٹ کر ان کے ہاتھ میں تھما دی ۔بچے ہاتھ میں روٹی لے کر چپ ہو گئے۔’’ تم بھی کچھ کھا پی لو، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔‘‘

گوری نے تھالی میں نمک روٹی اور پیاز گوپال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’کیسے ٹھیک ہو جائے گا؟‘‘اس نے تھالی اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔’’مہاجن کا قرض سرپرچڑھا ہے۔ ہر سال سوچتے ہیں کہ اس بار قرض چکا دیں گے،لیکن ابھی تک پورا نہیں ہوا۔سود پر سود چڑھا جا رہا ہے ۔ہم لوگوں کی اسی طرح کھیتی باڑی کرتے آدھی زندگی گزر گئی، اب یہ لوگ بھی بڑے ہو کر دن بھر کھیت میں ہل چلائیں گے۔‘‘

اس نے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ہر فکر سے بے نیاز ہو کر آنگن میں جمع پانی میں کود رہے تھے۔

’’گوری ۔۔۔۔۔ !‘‘

’’ہاں۔۔۔۔۔ !‘‘

گوری نے آہستہ سے کہا۔

’’بہت سوچنے کے بعد میں نے ایک فیصلہ کیا ہے ۔‘‘

’’کیسا فیصلہ۔۔۔۔۔؟‘‘

’’یہی کہ اب ہم سے کھیتی باڑی نہ ہوگی، اب شہر جا کر کوئی کام کرتے ہیں۔‘‘

’’ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ باپ دادا سب کھیتی کرتے آئے ہیں، اور تم شہر جائو گے۔۔۔۔۔یہاں کا گھر دروازہ کون دیکھے گا۔‘‘

’’دیکھ گوری میری بات سمجھ اس گھر کی حالت بہت خستہ ہو گئی ہے، اس کا صحیح سے مرمت ہونا ضروری ہے۔ سارا پیسہ مہاجن کا قرض چکانے میں ختم ہو جاتا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے بھی توہر سال اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑتا ہے۔ اس لئے اب شہر جا کر وہیں کمائیں گے ۔ پکا اور خوب اونچا گھر بنائیں گے، تاکہ سیلاب کی وجہ سے ہم لوگوں کو کسی دوسری جگہ نہ جانا پڑے ۔ ‘‘

اس کی بات سن کر گوری خاموش ہو گئی، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔’’شہر جا کر اپنا خیال رکھنا۔‘‘

’’ہاں گوری ہم اپنا خیال رکھیں گے، بس تم یہاں گھر دروازہ اور بچے کا خیال رکھنا۔‘‘

گاؤں سے ایک پرانی قمیص، پائجامہ پہن کر اور ہاتھ میں پرانا تھیلا لے کر اس نے شہر کا رخ کیا۔ شہر آکر اسے ایک اچھی فیکٹری میں کام مل گیا۔ گھر کی حالت اور بہتر بنانے کے لئے وہ نائٹ ڈیوٹی بھی کرنے لگا۔شہر آئے اسے ابھی کچھ مہینے گزرے تھےکہ آہستہ آہستہ گھر کی حالت بدلنے لگی۔ اچھا کھانے پینے سے بیوی بچوں کی شکل بھی نکل گئی تھی۔ گھر میں عیش و آرام کے سامان بھی آگئے تھےاور مہاجن کا قرض بھی ادا ہو گیا تھا۔

اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب گائوں کا گھر بنانے سے اچھا ہے،شہر میں ایک بڑا فلیٹ لےلے ۔بیوی ،بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزارے گا ۔ ہزاروں خواب وہ اپنی آنکھوں میں لئے اپنی بیوی ،بچے کے پاس واپس آ رہا تھا۔ اس کے جسم پر آج قیمتی لباس تھااور ڈھیر سارا سامان ۔گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرتا ہوا ہوائی جہاز سے آ رہا تھا۔ہوائی جہاز کے ساتھ اس کے خواب بھی ہوا میں پرواز کر رہے تھے۔اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی جستجو میں اس کی آنکھوں میں چمک پھیل گئی۔ہوائی جہاز لینڈ کرنے کے بعد وہ ائیرپورٹ سے باہر آیا اور ٹیکسی لی۔ وہ جلد از جلد اپنی بیوی،بچے کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔اس نے ٹیکسی ڈائیور کو ٹیکسی تیز چلانے کی ہدایت دی ۔جب گائوں کی سر زمین پر اس نے قدم رکھا تو پورا گائوں سیلاب میں ڈوباہوا تھا۔ ہر طرف چیخ وپکار کی آوازیں تھیں، سب ہی لوگ پریشان حال ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ اس قیامت خیز منظر کو دیکھ کر اس کے قدم ایک جگہ جم گئے۔ وہ فرط حیرت سے سب کو دیکھ رہا تھا۔کل ہی بیوی بچوں سے فون پر بات ہوئی تھی، اور آج ہر طرف لاش ہی لاش تھی۔ اسکے بھی بیوی بچوں کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہ پریشان حال اونچے ٹیلے پر کھڑا ہو کر اپنا گھر تلاش کرنے لگا۔سیلاب کی وجہ سے کسی کو آگے جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔

سب کی زبان پر بس یہی بات تھی کہ بھیم بند ٹوٹنے کے سبب پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا، کہ کسی کو سنبھلنے کا موقعہ نہ ملا۔ دوسری طرف قدرت نے ابر رحمت کو زحمت بنا کر گائوں کے ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا لیا۔درجنوں علاقوں کا نام ونشان ختم ہو گیا، اور ہزاروں مکانات زمین بوس ہو گئے، پھر سے اس گائوں کے لوگوں کو زندگی جینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑے گی، اور سیلاب میں جو بچ گئے ہیں، اپنوں سے جدا ہونے کے غم میں ان کی زندگی موت سے بدتر ہو گئی ۔۔۔۔۔تو کیا۔۔۔۔۔؟ میری بھی بیوی بچے ۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میری بیوی، بچے زندہ ہیں۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے، اور ان کے لئے شہر سے لائے سامانوں پر اس کی نظریں جاکر ٹھہر گئیں ۔۔۔۔۔وہ زندہ ہیں ۔۔۔۔۔ اور بیگ سے سب سامان نکالنے لگا ۔۔۔۔۔یہ لال ساڑی گوری کے لئے یہ کھلونے میرے بچوں کے لئے ۔۔۔۔۔وہ سیلاب میں ڈوب نہیں سکتے۔۔۔۔۔وہ زندہ ہیں۔ وہ پاگلوں کی طرح بیگ سے تمام سامان نکال رہا تھا۔

سرکار کی طرف سے سیلاب زدہ افراد کےہلاک ہونے والےکے ورثاء کو نام پکار کر پچاس ہزارروپئے دئے جا رہے تھے۔ گوپال کے ورثہ کو پچاس ہزار ۔۔۔۔۔وہ بولتے بولتے اچانک خاموش ہو گیا۔ اس کا دل دھک سے ہو کر رہ گیا۔ اس کے ہاتھ میں پچاس ہزار کاچیک تھا۔ وہ چیک کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بے شمار آنسو چیک پر گرنے لگے۔

’’نہیں۔۔۔۔۔نہیں میں یہ چیک نہیں لوں گا۔‘‘

اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ، اور چیک اس کے ہاتھ سے گر کر سیلاب میں بہہ گیا۔میں انہیں تلاش کر کے لاؤں گا۔اور اس کے قدم سیلاب کی طرف بڑھنے لگے ۔سبھی لوگ اسے آواز دیتے رہے لیکن وہ نہیں رکا۔

تازہ ترین
تازہ ترین