• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہجرت کا کرب اور سلائی مشین

نورین تبسم

دم گھٹنے والے حبس کی شدت ختم کرتی ہلکی ہلکی پھوار میں اور اپنے پرسکون گھر کےلان میں شام کی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے،پرانی یادوں کو تازہ کرنا کتنا خوبصورت لگتا ہے؟ بتانے والا چاہے وہیل چیئرپر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو، وہ بھی اتنے رسان سے اُن نامہربان لمحوں کا تذکرہ کرتا ہے، جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔ کوئی بھولا بسرا قصہ سناتے ہوئے آنکھ میں جلتی بجھتی شمعیں بچپن کی خوبصورت یادوں کا عکس بھی تازہ کرتی ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہےکہ مصیبت صرف اُسی وقت ناقابلِ برداشت لگتی ہے، جس روز اس کا سامنا ہوتا ہے۔

ستر برس پہلے کا ذکر ہے۔دلّی شہرکے نواحی علاقے "قرول باغ" میں سب انسپکٹر پولیس آغا عبدالعزیز اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔مرکزی عیدگاہ کے قریب اُن کے والد کے نام کی مناسبت سے فیض روڈ پر اُن کے گھر فیض منزل کے ساتھ ہی دوسرے بھائیوں کی کوٹھیاں تھیں،جن میں سے ایک تو اُن کے بھائی نے کسی عیسائی خاندان کو کرائے پر دے رکھی تھی اور دوسری "امین لاج " میں بھائی کا خاندان رہتا تھا، جن کی اہلیہ مسلم لیگ کی سرگرم کارکن تھیں ، وہ اکثر اپنی بچیوں کو ساتھ لے کر مسلم لیگ کے جلسوں میں جایا کرتیں۔ایک بڑا جلسہ گھر پر بھی منعقد ہوا۔محترمہ فاطمہ جناح تشریف لائیں، انہوں نے پیازی رنگ کا غرارہ پہنا ہوا تھا، گھر کی بچیوں نے نیشنل گارڈ کی لڑکیوں کے ساتھ مل کر شاندار استقبال کیا، پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور اظہارِتشکر کے طور پر ترانہ پیش کیا۔ جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا:

صدارت کی مسند کا چمکا ستارہ

بیگم جناح ہوئیں جلوہ آراء

اگست کے مہینے کی بات ہے۔شروع کی تاریخیں تھیں۔ عجیب بےیقینی کی صورتِ حال تھی، اگرچہ ملکی حالات اور سیاسی مسائل بگڑتے چلے جا رہے تھے پھر بھی آنے والے وقت کی سنگینی کا کسی کو رتی برابر اندازہ نہ تھا۔ عید کے بعد آغا صاحب کے بڑے بیٹے کی شادی طے تھی۔شادی کی تیاریوں کی غرض سے ایک نئی نکور سلائی مشین خریدی گئی، بہنیں بڑے چاؤ سےعید اور پھر شادی کے لیے جوڑے تیار کر رہی تھیں۔گھر میں رنگوں کی بہار تھی، سِلے ان سِلے کپڑوں کی گٹھڑیاںبنی ہوئی تھیں۔دھوبی کو دینے والے کپڑے بھی ایک گٹھڑی میں بندھے رکھے تھے کہ روز بروز بڑھتی کشیدگی کے باعث اس نے دھلائی سے انکار کر دیا تھا۔شہر میں کھانے پینے کی شدید قلت تھی اور راشن سسٹم کے تحت بھی آٹا، دال، چاول بمشکل ہی ملتا تھا۔ رات دن خوف وہراس کےعالم میں گزر رہے تھے۔ یہ 14 اگست 1947ء کے بعد کی کوئی تاریخ تھی جب قرول باغ بھی فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔برسوں سے ہندو سکھ، عیسائی مل جل کر رہ رہے تھے لیکن کسی کو بھی وقت کے اتنی تیزی سے پلٹنے کا اندازہ نہ تھا کہ کچھ تیاری ہی کر لی جاتی۔

بھرے پُرےخاندان کے لیے وہ ایک بھیانک دن تھا۔ رات ہی کھانے کا سامان آیا اور اب چولہے پر دوپہر کی ہانڈی چڑھی تھی کہ اچانک بلوائیوں کی لوٹ مار کا پتہ چلا اور سب جس حال میں تھے منٹوں میں گھر چھوڑ کر نکل پڑے۔باہر دیکھا تو سب محلے والوں کی سراسیمگی کا یہی عالم تھا۔ پہلے چچا کی کوٹھی میں اکٹھے ہوئے، پھر طے پایا کہ خطرہ باقی ہے تو ایک قافلے کی صورت میں کسی محفوظ مقام کا رُخ کیا جائے۔ گھر میں جس کے ہاتھ جو آیا وہ اٹھا لیا۔کسی نے میلے کپڑوں کی گٹھڑی اُٹھائی تو کسی کے پاس اَن سلےکپڑوں کی پوٹلیاں تھیں۔ ایک بھائی اور کچھ نہیں تو کاندھے پر سلائی مشین ہی رکھ کرچل پڑے۔ بےسروسامان باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک ہجوم تھا جو جان بچانے کے خوف سے اَن دیکھی منزل کی جانب بےسمت گھسٹتا چلا جا رہا تھا۔بھوک پیاس سےنڈھال، چلتے چلتے ایک جگہ کھانے کی خوشبو نے قدم روکے،کچھ تجارتی لوگوں نے دیگیں چڑھائی ہوئی تھیں۔

اللہ کی شان کچھ گھنٹوں میں عرش سے فرش پر آگئے۔ایک شناسا ملا تو دیکھ کر سکتے میں آ گیا کہ داروغہ صاحب اور اس حال میں؟ اپنے گھر میں پکتا ہوا تازہ کھانا چھوڑ کر پیٹ پوجا کے لیے فرش پر بیٹھے ہی تھے کہ فسادیوں کی"جے ہند"کی آوازیں سنائی دیں،اٹھ کر اندھادھند بھاگے،کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ انہوں نے کھانے میں تیزاب ڈال دیا۔ اب پھربھوک پیاس کے ساتھ سفرہی سفر،خیر کسی طرح دلی کے"پرانے قلعے"میں سر چھپانے کو عارضی ٹھکانہ ملا۔

سیاسی اور مذہبی مسائل سے انجان، اُن بےپروا شوخ وشنگ لڑکیوں کے لیے یہ ایک الگ ہی ہیبت ناک تجربہ تھا،جو اگر برستی بارشوں میں جھولے جھولتیں تو کبھی اپنے چچا کے گھر سب کے ساتھ مل کر ململ کے دوپٹے رنگے جاتے، خوب خوب ڈیزائن بنتے، چمک دینے کے لیے ابرق لگائی جاتی۔دیکھتے ہی دیکھتے رنگ برنگ دوپٹوں کی ست رنگی دنیا آباد ہو جاتی، پھراُن کو ڈوریاں دھاگے لپیٹ کر چنوایا جاتا اور جب تیاری مکمل ہو جاتی تو ایک دوسرے سے مقابلہ ہوتا۔ خوشیوں کے یہ رنگ جتنے بھرپور تھے اتنے ہی کچے بھی، ایک آدھ دھلائی کے بعد یوں غائب ہو جاتےکہ نام ونشان نہ رہتا۔کبھی تپتی دوپہروں میں جب چچی سو جاتیں تو گھر سے ذرا دور گلی میں بڑی سی مسجد میں لگے املی کے درخت سے ایک انگلی جتنے بڑے کٹارے توڑ کر کھائے جاتے جو خوب کھٹے ہوتے۔

اپنے گھروں کی عافیت میں خواب لمحوں میں رہنے والی بچیوں کے لیے پرانا قلعہ ایک ایسا عقوبت خانہ تھا ،جہاں آنکھ نے ایسے عذاب اور ایسی کسمپرسی دیکھی کہ بیان سے باہر ہے۔کہنا لکھنا بہت آسان ہے پر تصور کی آنکھ لرزا دیتی ہے۔

دہلی کے تاریخی پرانا قلعہ پہنچے تو وہاں کے مخیر لوگوں نے کھانے پینے کا انتظام کر رکھا تھا۔ لیکن پورے خاندان میں کسی کے پاس کوئی برتن نہیں تھا یہاں تک کہ پینے کے لیے پانی کا گلاس بھی نہیں،پھر یوں ہوا کہ ایک دودھ والا اپنی بیوی کے جہیز کے برتن لے آیا کہ بیچ کر کچھ پیسے ہی ہاتھ آ جائیں۔ اس سے کچھ سامان خریدا۔ اپنے پاس سامان کے نام پر صرف وہی چمکتی دمکتی سلائی مشین تھی جو بھائی اپنے کندھے پر اٹھائے رہتا کہ اس کے رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی،اسی دوران کسی بدنیت نوسرباز کی نگاہ اس مشین پر پڑ گئی، پہلےچالاکی سے بھاؤ تاؤ کرنے لگا اورہاتھ کے اشارے سے تیس روپے کا لالچ دیاجو اُس دور اور اُن حالات میں بہت بڑی ترغیب تھی۔اسی اثنا میں ایک پولیس والے کو قریب آتا دیکھ کر رفو چکر ہو گیا۔ پرانے قلعے میں قیام کےچند روز بعد بڑے بھائی جو قدرے سمجھ دار تھے ان کی قریبی حمام بنانے والے کارخانے پر نظر پڑی۔ وہاں سے جست کی بڑی بڑی چادریں اٹھا لائے جو شایدُلوٹنے والوں کے لیے بےکار تھیں، اسی لیے بچ گئیں، یوں اماں ابا اور بچوں کے لیے بیٹھنے کا سامان کیا۔پرانے قلعے میں اس خاندان کو ایک "در"میسر آ گیا، یوں کچھ آسانی ہو گئی ورنہ لوگ خیمے لگا کر تو کہیں ایسے ہی سرراہ پڑے تھے اور ساتھ ساتھ ان کے اپنوں کے بےگور وکفن تعفن دیتے لاشے۔ یہاں کیا مرد ، کیا عورت؟ بےپردگی کے احساس سے عاری، سب اپنے اپنے حصے کے روگ بھگت رہے تھے اور بچے بڑے پتھرائی آنکھوں سے زندگی کے بھیانک سبق پڑھتے تھے۔اوپر سے برسات کا مہینہ اور بارش کا زور۔ ہیضے اور اسہال کے وبائی امراض کی وجہ سے جتنی زندہ لاشیں دیکھتے تھے اتنے ہی مردہ جسموں کےانبار نظر آتے تھے۔

دو ماہ جیسے تیسے قلعے میں گزرے،پھر کسی طرح کوشش کر کے فیصل آباد(پرانا نام لائل پور) جانے کے لیے ایک ٹرین میں سوار ہوئے جو کہ یہاں کی حکومت نے خاص طور پر فیصل آباد کے ہندوؤں کو لینے کے لیےروانہ کی تھی۔فیصل آباد کے ستیانہ گاؤں میں پانچ مربع آبائی زمین کی بھی عجب کہانی ہےیہ زمین انگریز سرکار نے آغا جی کے والد کو گھوڑدوڑ جیتنے پر انعام میں دی تھی۔تقسیمِ ہند سے پہلے آغا جی اپنے بال بچوں کے ساتھ فیصل آباد اپنی والدہ کے پاس گئے تھے کچھ دن رہے بھی لیکن اُن کی بیگم نے گاؤں کے ماحول میں صرف بچوں کی پڑھائی کے حرج کی بناء پر ہندوستان واپسی کو ترجیح دی۔

قیام پاکستان یا اس طور تقسیمِ ہندوستان کا خیال شاید اس وقت ان میں سے کسی کو نہ تھا۔چھوٹے بھائی جو ڈاکٹر بھی تھے وہ فیصل آباد میں رہائش پذیر تھے۔ یوں اس طرح یہ خاندان اپنے سب بال بچوں کی سلامتی کے ساتھ بڑی عید سے کچھ روز پہلے فیصل آباد پہنچ گیا اور سکون کا سانس لینا نصیب ہوا۔

وہ سلائی مشین جو افراتفری میں بھائی نے اُٹھا لی اور اس کے کاندھے کا بوجھ بن کر اُن کی بےچارگی کی گھڑیاں گنتی رہی، بالآخر خیریت سے پاکستان پہنچ گئی۔ یہاں آ کر وہ بےجان سلائی مشین پہلے جسےانسانی جان کی ارزانی دیکھتے ہوئے سنبھالنا بظاہر بےوقوفی لگتا تھا۔اس نے مالی حالات سنبھالنے میں بہت ساتھ دیا۔ گاؤں میں رہتے ہوئے بڑی بھابی نے گھر بیٹھ کر زنانہ مردانہ کپڑے سئیے۔یہاں سب بھائی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے لگ گئے،رفتہ رفتہ سب بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ 60 ء کےعشرے کے آغاز میں سلائی مشین اُٹھانے والے اُسی بھائی کی شادی ہندوستان میں رہنے والی اپنے ماموں کی بیٹی سے طے پائی جو شادی کے لیے خاص طور پر پاکستان آئیں۔روزگار کے لیے یہ بھائی زیادہ تر کراچی میں مقیم رہے لیکن اُن کا خاندان فیصل آباد میں ہی رہا۔ 

بظاہر بےربط لگتے اس قصے کا تعلق ہجرت کہانی اور سلائی مشین سے یوں بنا کہایک مشہور کمپنی کی بنی بچاس سال پرانی سلائی مشین اگرچہ اس کا رنگ وروغن ماند پڑ چکاآج بھی بھائی کے گھر اُن کی بیگم کے پاس اُسی طرح کارآمد ہے، جیسے کہ کبھی اس نے نیا نیا کام کرنا شروع کیا تھا۔وہ بھائی اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہوئے جنوری 1996 ء میں شبِ برات کو جس کروٹ سوئے تھے، اُسی میں مالکِ حقیقی سے جا ملے، یوں کہ تسبیح ہاتھ میں تھی۔

یہی زندگی کے میلے ہیں اور دُنیا کا دستور بھی یہی کہ، جیتے جاگتے قیمتی انسان چلے جاتے ہیں بےجان بےقیمت چیزیں رہ جاتی ہیں، زندگی چلی جاتی ہے اور یادیں رہ جاتی ہے۔

(یہ میری ساس امی محترمہ رابعہ بیگم کی کہانی ہے جو سال2015 چھ نومبر کو وفات پا گئیں۔اس کا لفظ لفظ سچ ہے جس کا وہ اکثر ہم سب کے سامنے ذکر کرتی رہتی تھیں)

تازہ ترین
تازہ ترین