فاطمہ حسین
’’السلام علیکم ‘‘
’’ارے! وعلیکم السلام افضل صاحب !بھئ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟ ‘‘
افضل صاحب نماز عصر کی ادائیگی کے بعد مسجد کے باہر مختلف ٹھیلوں سے چیزیں خریدنے میں مگن تھے، طارق صاحب کی آواز پر چونکے اور فوراََ پلٹے ۔
’’جی طارق میاں اللہ کا خاص کرم ہے، آپ سنائیں۔‘‘
’’بھئ ہمارے حال بھی اچھے ہیں اللہ کے فضل سے۔‘‘ طارق صاحب نے پر جوش انداز میں جواب دیا۔
’’ویسے سب خیریت تو ہے ؟کوئی دعوت ہے گھر میں جو اس قدر سامان خریدا جارہا ہےاور آپ کا لباس بھی آپ پہ بہت جچ رہا ہے۔لگتا ہے کوئی خاص دعوت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔‘‘طارق صاحب نے ان کی خریداری دیکھ کر استفسار کیا۔افضل صاحب سفید کلف دار شلوار قمیض میں ملبوس ساتھ کالے رنگ کی ویسٹ کوٹ پہنے ، سائیڈ پہ چھوٹا سا پاکستانی جھنڈے کا بیج لگائے ہوئے تھے،جس نے ان کی شخصیت کو مزید نکھار دیا تھا۔
وہ کھلکھلا کے ہنس دیے۔’’ارے نہیں طارق صاحب! وہ دراصل کل یومِ آزادی کا دن ہے ناں۔ چھٹی بھی ہے،اس لیےآج اپنی فیملی کے ہمراہ تفریح کرنے کا اور پھر کوئی اچھی مووی دیکھنے کا پروگرام بنایا ہے اور یہ سب تیاریاں بھی خاص اسی وجہ سے ہیں۔‘‘افضل صاحب جوش سے بتا رہے تھے ۔
طارق صاحب کو شدید افسوس ہوا ۔وہ قطعی یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ افضل صاحب جو ماشاء اللہ پنج وقت کے نمازی ہیں اور مسجد میں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں، اس طرح کی بات کریں گے۔وہ یاسیت سے بولے۔’’بھئی آج واقعی تاریخ کا خاص دن ہے۔ اور ہماری آزادی کا اہم ترین دن، مگر افسوس اس دن کی اصل اہمیت سے ہم واقف ہیں نہ ہی پاکستان بننے کے اصل مقصد سے۔‘‘طارق صاحب سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔’’جس مقصد کےلئے پاکستان وجود میں آیا، وہ تقریبا فوت ہوچکا ہے۔ یہ ملک برصغیر کے مسلمانوں کی ان گنت قربانیوں اور انتھک جدوجہد کا صلہ ہے۔ایک ایسا ملک مل جانا، جہاں کی کھلی فضا میں آزادی کا سورج روشن ہوتا ہو، جہاں کی ہوائیں کھل کر جینے کا پیغام دیتی ہوں،جہاں ہم اپنے مذہب کی پاسداری کرتے ہوں، بلا خوف وخطر اللہ سبحانہ تعالی کا نام لیتے ہوں ، عبادت کرتے ہوں ،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور انہیں عام کرتے ہوں ۔بلا شبہ آزاد ملک کا حاصل ہوجانا انعام ونعمت خداوندی ہے،مگر افسوس.... ہم نے اس عظیم قربانی کا مقصد نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اسے سمجھنے سے بھی قاصرہیں۔‘‘
افضل صاحب طارق صاحب کی باتیں غور وخوض سے سن رہے تھے،انہیں یہ محسوس ہونے لگا تھاکہ جیسے وہ پاکستان کے اصل مقصد سے آج واقف ہورہے ہوں ۔انہوں نے اپنے عمل کے پیش نظر کوئی توجیہہ پیش نہیں کی تھی۔
طارق صاحب نے افضل صاحب کا چہرہ دیکھا تو وہاں گہری سوچ نظر آئی، ماتھے پہ شکنیں پڑنے لگی تھیں،انہیں افضل صاحب پوری طرح متوجہ نظر آئے۔
طارق صاحب نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھا ۔
’’آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا تھا، جو 22 مارچ سے 24مارچ 1940ء تک جاری رہا۔اس اجتماع میں 23 مارچ 1940ء کو تقریر کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایاتھا،’’مسلمان قوم کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں اور ان کے پاس اپنا وطن،اپنا علاقہ اپنی اور اپنی ریاست ہونی چاہیے ،جہاں مسلمان مکمل طور اپنی روحانی،ثقافتی ،اقتصادی،سماجی اور سیاسی زندگی کی اس طرح تعمیر کریں، جس سے ہم سب بہتر سمجھیں اور جو ہمارے تصور سے مطابقت رکھے اور ہمارے لوگوں کی خواہش کے مطابق ہو۔‘‘
افضل صاحب اندازہ کرچکے تھے کہ آج تک انہوں نے پاکستان کی تاریخ کو صرف پڑھا تھا۔کبھی دل سے محسوس نہیں کیا تھا۔انہیں اس بات پہ پشیمانی ہورہی تھی ۔
’’آج ہم پاکستانی صرف پرچم لہرا کراور چھٹی مناکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پاکستان کا حق ادا کرلیا۔درحقیقت ہم دھوکے میں جی رہے ہیں۔پاکستان کا حق ادا تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم اپنے ملک کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس کی ترقی کےلئے سرگرداں نظر آئیں۔اس کے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک پر امن،محفوظ اور روشن مستقبل دینے کےلئے کوشاں رہیں۔‘‘
طارق صاحب اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوگئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں امیدوں کے دیئے روشن تھے۔ وہ ایک معروف کمپنی میں اعلی عہدے پر فائز تھے اور ملک و قوم کی فلاح وبہبود کےلئے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے۔
افضل صاحب کی آنکھوں پہ جو سیاہ پٹی لپٹی تھی وہ کھل چکی تھی۔ دل کی سیاہی ختم ہوچکی تھی،ہر طرف روشنی منعکس تھی۔وہ خود پاکستان کے ایسے شہریوں میں تھے جو روز دفتر میں بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کولعن طعن کرتے تھے۔برا بھلاکہتے تھے،کبھی خود کامحاسبہ نہیں کیا،ہربرے کام کی وجہ ملک کو ٹھہرادیا کرتے تھے۔
یہ ہردوسرے شہری کی کہانی بن چکی ہے۔ذرا سوچئے۔یہ ہم سب کےلئے لمحہ فکریہ ہے!