• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل ہی ہم بچوں کو لے کر چُھٹیاں گزارنے ترکی(استنبول) گے۔ اپنےدورے کے آخری دن جب ہم ایک برگر کی دکان کے باہر لان میں رکھے ٹیبل پر لنچ کر رہے تھے کہ ایک بھکاری تھکا ہارا بڑی مشکل سے ٹانگیں گھسیٹ کر ہمارے قریب آیا اور ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے، جس پر ہم نے اُسے چند سکے( لِیرے) تھما دیئے ، مگر وہ پھر بھی للچائی ہوئی نظروں سے ہمارے کھانے کو دیکھ رہا تھا۔ 

اس کی حالت دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کس ملک کا ہے مگر میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ وہ ہمارا ہی ہم وطن ہے، تو مَیں نے گرما گرم آلو کے چپس کا ایک پیک اس کو تھما دیا ،اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ ہماری ٹیبل سے دور جا کر نیچے بیٹھ گیا،اتنے میں ویٹر کی اس پہ نظر پڑی تو، ویٹرنے اسے وہاں سےباہر جانے کے لیے کہا۔ جس پر وہ اشارے سے کہنے گا کہ یہ آلو کھا کر اُٹھ جاتا ہوں یہ سارا منظر دیکھ کر مجھے بہت ہی دکھ ہو رہا تھا اور میرا نوالہ حلق سے نیچے نہیں اُتر رہا تھا، کہ میرے ہم وطن کو گلی میں بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ۔مَیں نے کولڈ ڈرنک جو ابھی پینا شروع نہیں کیا تھا وہ بھی اسے دے دیا۔ 

اس نےمجھے شلوار قمیص میں ملبوس دیکھا تو اردو میں پوچھا کہ پاکستانی ہو ۔میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا تم یہاں اس حال میں کیوں ہو تو،اس نے روتے بلکتے ہوئے کہا کہ میں لاہور کا رہنے ولا ہوں ،یہاں مجھے کام نہیں مل رہا،دوسال سے ادھر بھیک مانگ کے کھا رہا ہوں ۔واپس جانا چاہتا ہوں مگر پیسے نہیں کہ واپسی کی ٹکٹ ہی لے لوں۔ پولیس کو بھی کہا کہ مجھے واپسی کی ٹکٹ دے دو مگر وہ مدد نہیں کر رہے .... اس کی باتیں،لہجہ اورحلیہ دیکھ کر دل تو خون کے آنسو رو ہی رہا تھا مگر آنکھیں بھی روئے بنا نہ رہ سکیں۔ ہمارے پاس اس وقت ٹائم بہت کم تھا ۔ہمیں ائرپورٹ کے لئے نکلنا تھا۔پھر بھی جتنا ہو سکا میںنے مدد کر دی۔جس پر وہ دعائیں دیتا اور روتا ہوا چلا گیا۔

پردیس میں ہم وطنوں کو ایسے حال میں دیکھنا بلا شبہ تکلیف دہ ہے۔ ہمارا سفرتو بہت اچھا رہا، مگر آخر میں یہ جو منظر دیکھا جو شاید کبھی بُھلا نہ سکوں۔ ہم وطنوں کے لئے پیغام ہے کہ مانا کہ پاکستان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں، اگر آپ لوگ پردیس جانا چاہتے بھی ہیں تو ایسے ممالک میں جائیں جہاں کام بھی ہو۔جہاں دھکے کھانے پڑیں ، جُھوٹا کھانا پڑے،ایسی ذلت سے اپنے ملک میں تکلیف اُٹھانا بہتر ہے ۔ پردیس میں بھیک مانگ کر شرمندگی سے نظریں جھکانے سے اپنے ملک میں روکھی سوکھی کھا نا بہتر ہے۔دعا کریں کہ اللہ سب کی مشکلیں آسان کرے اور پاکستان میں ایسی خوشحالی آئےکہ پردیس جانے کی ضرورت نہ ہو۔ (محمد رضوان،حیدرآباد)

تازہ ترین