شمیم الدین غوری
بلوچستان سمندری ساحلی ماحول سے مالا مال ہے،جیسے جیسے لوگوں میں سیاحت کا شوق پنپ رہا ہے ،ویسے ویسے بلوچستان کے تفریح مقامات مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔چند سال قبل بلوچستان کی سیاحت ،صرف گڈانی اورکوئٹہ تک محدود تھی،وہاں کے دُور دراز علاقوں میں جانا خطرناک سمجھا جاتا تھا۔اب لوگوں میں بلوچستان کے بارے میں شعور بیدار ہو رہا ہے،اس کی اہم وجہ سوشل میڈیا بھی ہے،جو اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہے،جبکہ پہلےیہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ملیر کنڈ، کیا اور کہاں ہے،لیکن اب سوشل میڈیا کی بدولت یہ پکنک اور سیاحت کا مصروف ترین مقام بن گیاہے۔
بلوچستان کے ساحل پر بے شمار مقامات سیاحت، پکنک اور ایڈونچر کے شوقین کے لئے ہیں، بلوچستان کوسٹل ہائی وے نے بھی ان مقامات تک رسائی آسان کر دی ہے۔ ساتھ کچھ سیاحت کے شوقین نے نئے نئے ساحلی مقامات دریافت کر کے سوشل میڈیا پر ڈالے ہیں۔ نئی نئی جگہیں اپنی انفرادیت اور خوبصورتی کی وجہ سے وائرل ہو کر مقبول بنتی جا رہی ہیں، جن میں تنکّو، شنب، رس میلان، گنز، پشکان، سپٹ، بوجی کوہ نانی مندر، پرنسس آف ہوپ، مڈوالکینو ہیں۔ یہ مقامات آہستہ آہستہ سیاحوں میں مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔
ساحلِ بوجی کوہ پر آنے والے سیاحوں کا گراف آج کل اونچا جا رہا ہے، یہاں کے مقامی لوگوں میں دو روایات بتائی جاتی ہیں۔ بلوچی زبان میں بوجی کے معنی بوجھ اٹھانے والی کشتی یا ٹرالر کے ہیں۔ یہاں سمندر کے قریب ایک پہاڑی دُور سے ایسی معلوم ہوتی ہے، جیسے سامان سے لدا ہوا ٹرالر سمندر میں رواں دواں ہے۔ دوسری روایت ہے کہ بوجی کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو بُوجی کے معنی اکیلے کے ہیں،یہاں ایک چٹان ایسی نظر اتی ہے، جیسے اکیلی سمندر میں کھڑی ہے، اس لحاظ سے یہ بُوجی کوہ کہلایا جاتا ہے۔ کراچی سے آر سی ڈی ہائی وے پر گزرتے 115 کلو میٹر کے فاصلے پر بلوچستان کوسٹل ہائی وے کا زیرو پوائنٹ آتا ہے، جہاں سے بلوچستان کوسٹل ہائی وے شروع ہوتی ہے۔ بوجی کوہ جانے کے لیے اس ہائی وے سے دو راستے نکلتے ہیں، یہاں سے85 کلو میٹر کے بعد چندر گپ کے لئے ایک پکی سڑک مڑتی ہے۔ چندر گپ پاکستان کا ایک عجوبہ ہے۔ یہ ایک مٹی فشاں ہے، اس کے دہانے سے آگ کی جگہ کیچڑ اور پانی نکلتا ہے۔ یہ تین سو میٹر اونچا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ لاوا نکلنے سے یہ مزید اونچا ہوتا جا رہا ہے، اس کا دہانہ کوئی پچاس فٹ قطر کا ہے اور ہر وقت ٹھنڈے لاوے سے بھرا رہتا ہے۔ کناروں سےلاوا بہہ بہہ کر نیچے آتا رہتا ہے۔ یہ ہندووں کا متبرک مقام بھی ہے۔ ہر سال ماہ اپریل میں نانی ہنگلاج کی یاترا پر آنے والے لاکھوں یاتری اس متبرک مقام پر یاترا کے دوران ناریل کا چڑھاوا اور دیگر رسومات ادا کرتے ہیں، یہاں تک پکی سڑک ہے، اس سے آگے پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک جیپ ٹریک یا بائیک ٹریک کا دشوار راستہ ہے، جو سمندر کے مقام بوجی کوہ تک جاتا ہے، ان پہاڑیوں پر صبح اور شام کے دھندلکے میں ہرنوں کی چہل قدمی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ راستہ بوجی کوہ کے مغرب میں نکلتا ہے۔ دوسرا راستہ جو زیادہ مقبول ہے، وہ بلوچستان کوسٹل ہائی وے سے نکلتا ہے۔ یہ کچا راستہ میدانی اور قدرے آسان ہے، اس راستے پر چلتے ہوئے سراب کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر موسم میں اس راستے پر ایسا لگتا ہے، جیسے سامنے پانی ہے اور اس میں جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں، جوں جوں آگے چلتے جائیں، پانی بھی آگے چلتا جاتا ہے۔ یہ سراب دیکھنے کی ایک مثالی جگہ ہے۔ دوسرا راستہ بوجی کوہ کے مشرق میں جاتا ہے۔ دونوں راستے بوجی کوہ کے دائیں بائیں پاس پاس نکلتے ہیں، ان راستوں سے کوئی اٹھارہ بیس کلو میٹر فاصلےپر بوجی کوہ واقع ہے۔ دونوں راستوں سے سمندر میں نیچے اترنا پڑتا ہے۔ پہلے راستے سے نیچے اترنے کے لئے ایک موٹا رسہ مقامیوں نے باندھا ہوا ہے، اس کی مدد سے نیچے اتراجاتا ہے، دوسرا راستہ ریت کے ٹیلے سے نیچے اترنےکاہے۔
بوجی کوہ ایک انتہائی خوبصورت ریتیلا اور اُتھلا ساحل ہے۔ سردیوں میں سمندر میں دور تک پانی میں چہل قدمی کی جاسکتی ہے، اس کی ایک خوبصورت چٹان، پانی میں سر اٹھائے کھڑی ہے۔ چٹان کے ارد گرد پتلا پانی ہے، جس سے گزر کر اِدھر اُدھر جاسکتےہیں، یہاں چند دلچسپ غاریں بھی ہیں، جن کا حسن دیکھنے سمندرکی موجیں بھی آتی ہیں۔ یہاں کی سمندری لہریں اپنے محبوب کے چرنوں میں آکر خاموشی سے دم توڑ دیتی ہیں۔ یہ نظارہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ قدرت کی رنگینیاں یہاں اپنے جلوے دکھاتی ہیں۔ چٹانوں اور ساحل کے ساتھ طلوعِ آفتاب اور غروب ِآفتاب کے مناظر بھی انتہائی حسین و دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے سمندر میں ایک خاص چیز اس کی رات میں چمک ہے۔ اندھیری رات میں اس کے پانی میں ہلکی نیلگوں روشنی کے ذرات کی چمک اور چاندنی رات میں سبزی مائل نیلگوں کےذرات کی چمک ہوتی ہے۔ لہروں کے دوش پر آتی یہ چمک بہت ہی دلفریب لگتی ہے۔
کوئی ننھی مچھلی اگر سطح آب پر ہو تو وہاں اس روشنی کی چمک کا دائرہ بن جاتا ہے۔ مچھلیوں کا غول اگر آجائے تو سمندر میں گویا چراغاں ہو۔ دلچسپ و عجیب غاروں نے اس مقام کوسیاحوں کے لئے مزید پر کشش بنا دیا ہے۔ سیاح ان کے اندر گھس کر دوسرے غاروں کی تصاویر لیتے ہیں۔ ابھی یہاں ہاکس بے کی طرح جھونپڑیاں نہیں ہیں، اس لئے اس ساحل کا قدرتی حسن برقرار ہے، یہاں کوئی دکان، مکان، بھٹے بیچنےوالا یا مانگنے والا نہیں ملے گا، اپنی مدد آپ کا اصول کار فرما ہے۔ پانی، کھانا، پیٹرول اور دیگر ضروریات کا بندوبست کرکے آنا ہوتا ہے، ایک چائے پیالی کی بھی یہاں امید نہ رکھیئے۔
صاف ستھرے ساحل پر کیمپ لگانے کی بہترین جگہ موجود ہیں۔ سیاح رات کو یہاں کیمپوں کے سامنے باربی کیو بھی بناتے ہیں۔ خاص طور پر چاندنی راتوں میں چاندنی اور سمندری نظاروں کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں مطلع صاف ہونے پر ستاروں بھرے آسمان کا نظارہ کرتے ہیں۔ کیمپ لگانے والوں کو کچرا یہاں نہیں پھینکنا چاہیے،کیونکہ یہ علاقہ ابھی قدرتی حسن برقرار رکھے ہوئے ہے، اس کی خوبصورتی کو آلودگی سے پامال نہ کیا جائے۔