ڈاکٹر محمد ارشد، لاہور
دنیائے اسلام کے ممتاز مؤرخ اور دانش ور، پروفیسر فؤاد سزگین، رواں برس 30جون 2018ء کو 94برس کی عمر میں ترکی کے شہر، استنبول میں انتقال کرگئے۔ وہ بلامبالغہ موجودہ زمانے کے ایک بڑے اسلامی اسکالر تھے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ،Geschichte des Arabischen Shrifttums (تاریخ علومِ عربیہ و اسلامیہ) کی تصنیف ہے، جو درحقیقت جرمن محقّق، کارل بروکلمان کی اسی نام سے لکھی گئی کتاب کی تکمیل ہے، جو1898ء سے 1902ء کے دوران شایع ہوئی۔ دراصل بروکلمان کی کتاب میں خاصی کمیاں رہ گئی تھیں، جنہیں پروفیسر فواد سزگین کی کتاب نے بہت حد تک مکمل کردیا۔ پروفیسر سزگین کی کتاب عربی زبان میں لکھے گئے تقریباً تمام تر علمی ذخیرے کی تدوین ہے۔ اس میں ہر کتاب سے متعلق معلومات موجود ہیں کہ وہ چھپ چکی ہے یا نہیں، اور اگرمخطوطہ (قلمی تحریر، غیر مطبوعہ کتاب) ہے، تو کن کن کتب خانوں میں موجود ہے۔ یہ وہی کام ہے، جس کی ابتدا ابن الندیم (438 ہجری) نے ’’الفہرست‘‘ کے نام سے کی، لیکن اب یہ کام پچھلی دوصدیوں سے مغرب کے لوگ ہی انجام دے رہے ہیں اور پروفیسر سزگین بھی مغرب ہی میں رہایش پزیر ہونے کے سبب اتنی بڑی علمی و ادبی خدمت انجام دے پائے، وگرنہ ان کے اپنے ملک میں تو انہیں ٹیچر کے عہدے سے برخاست کردیا گیا تھا، جس کے بعد وہ جرمنی چلے گئے۔ اس کتاب کی ابتدا پروفیسر سزگین نے 1947ء میں کی اور اس کی پہلی جِلد 1967ء میں شایع ہوئی۔ وفات کے وقت پروفیسر سزگین کتاب کی اٹھارہویں جِلد پر کام کررہے تھے۔ اسلامی علمی وتہذیبی تاریخ پر اس سے بڑی کتاب آج تک مدّون نہیں کی جاسکی۔ اس میں عربی زبان میں لکھے جانے والے تقریباً تمام ہی ورثے کا بڑی حد تک احاطہ کیا گیا ہے، جس میں قرآنِ پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علمِ کلام، عربی شاعری، طب، علمِ حیوان، کیمیاء، زراعت، علمِ نباتات، ریاضیات، علمِ فلک، نجوم، عربی زبان، جغرافیے، نقشے اور عربی مخطوطات کے ذخیرے وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر فؤ اد سزگین کئی زبانیں جانتے تھے، جن میں عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاطینی شامل ہیں۔ زیرِنظر مضمون میں پروفیسرفؤ ادسزگین کے علمی کارناموں کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔
پروفیسرفؤ ادسزگین 1924ء میں ترکی کے شہر ارضِ روم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد استنبول چلے آئے، جہاں جامعۂ استنبول کے معہد الدراسات الشرقیہ (انسٹی ٹیوٹ فار اورینٹل اسٹڈیز) میں معروف جرمن مستشرق، ہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) سے رابطہ قائم ہوا۔ (یاد رہے، پہلی جنگ عظیم کے بعد سے جرمن مستشرقین کی ایک بڑی تعداد استنبول منتقل ہوکر دنیائے اسلام کے اہم ترین تہذیبی و ثقافتی مرکز میں تحقیق و تدریس میں مشغول ہوگئی تھی۔ متعدد نام ور جرمن مستشرقین بھی جامعہ استنبول کے کلیۂ ادبیات میں قائم معہد الدراسات الاسلامیہ سے وابستہ رہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پروفیسر این میری شمل بھی اسی ادارے میں ایک عرصے تک تقابلِ ادیان کا درس دیتی رہی ہیں)۔ چوں کہ پروفیسر رٹر، اسلامی ادبیات اور تاریخ سے گہرا شغف رکھتے تھے، چناں چہ ان ہی کے زیرِاثر فؤ اد سزگین ادبیات اور علومِ اسلامیہ و شرقیہ کی تحصیل کی طرف راغب ہوئے اور 1951ء میں ادبیات میں گریجویشن کے بعد 1954ء میں عربی ادبیات میں ’’امام بخاری کے مصادر‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنے مقالے میں محکم تاریخی شواہد کی بنا پر حفاظت و تدوینِ حدیث سے متعلق مستشرقین کے ان دعووں کو رَد کیا کہ’’ ابتدائے اسلام کے بعد کئی صدیوں تک حفاظتِ حدیث کا کوئی قابلِ اعتماد نظام موجود نہ تھا، بلکہ اس کا مدار کلّی طور پر زبانی روایت پر رہا ہے،جس کے باعث مابعد صدیوں میں محض زبانی روایات کی اساس پر احادیث کے جو ضخیم مجموعے مدون ہوئے، ان میں بہت سی مَن گھڑت احادیث و روایات راہ پاگئیں۔‘‘ پروفیسرفؤ ادسزگین نے اپنے مقالے میں تاریخی شہادتوں کی بنا پر اس امر کو پایۂ ثبوت تک پہنچایا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘ کی تدوین میں بہت سے تحریری مجموعوں سے استفادہ کیا، جو اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ ’’صحاحِ ستہ‘‘ کی تدوین سے قبل بھی احادیث کے بہت سے مجموعے ضبطِ تحریر میں آچکے تھے۔ پروفیسر سزگین کا یہ تحقیقی مقالہ1956ء میں ’’حضرت امام بخاری ؒ کے مصادر کا مطالعہ‘‘ کے عنوان سے چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔ پروفیسرفؤ ادسزگین، ڈاکٹریٹ کے بعد استنبول یونی ورسٹی کی کلیۂ ادبیات میں درس و تدریس پر مامور ہوئے۔1961ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم، عدنان منڈریس کی حکومت کے خاتمے اور فوجی بغاوت کے بعد وزارتِ تعلیم کی ایک تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر استنبول یونی ورسٹی کے جن اساتذہ کو خطرناک قرار دے کر برخاست کیا گیا، ان میں پروفیسرفؤ ادسزگین بھی شامل تھے۔ چناں چہ وہ ترکِ وطن کرکے جرمنی چلے گئے۔ جہاں 1965ء میں فرینکفرٹ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1966ء میں اسی یونی ورسٹی میں پروفیسر مقرر ہوگئے۔ ان ہی دنوں ارسولا نامی ایک جرمن خاتون سے شادی کی، جن سے ان کی اکلوتی بیٹی ہلال پیدا ہوئی۔
تاریخِ علومِ اسلامیہ و عربیہ (دینی اورسائنسی علوم و فنون کی تاریخ) پروفیسرفؤ ادسزگین کی تحقیقی تگ و تاز کا خاص میدان رہا ہے۔ اس باب میں ان کا اہم ترین علمی کارنامہ تو Geschichte der Arabischen Shrifttums (تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ)کی تالیف ہے۔ اس میدان میں پروفیسرفؤ اد سزگین کے پیش رو، جرمن مستشرق، کارل بروکلمان نے اپنی مایہ ناز کتاب Geschichet der Arabischen Litteratur ( تاریخِ ادبیاتِ عربی) تصنیف کی تھی، جس میں مشرق و مغرب کے کتب خانوں میں اسلامی و عربی ادبیات (علوم وفنون) سے متعلق مسلمان علماء کی تالیفات (مخطوطات) اور ان کے مصنّفین کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کارل بروکلمان کی یہ تصنیف لائیڈن سے پانچ جِلدوں میں شایع ہوئی۔ کارل بروکلمان کا یہ قابلِ قدر و قابلِ ستایش علمی منصوبہ بعض اعتبار سے اُدھورا رہا۔ مذکورہ کتاب میں مشرق و مغرب کے کتب خانوں میں موجود مسلمان علماء کے بہت سے علمی آثار و نوادرات کا اندراج ہی نہیں تھا،جب کہ استنبول کے کتب خانوں میں موجود بہت سے اسلامی ادبی آثار سے بھی بروکلمان لاعلم رہے۔ نیز، بہت سے مخطوطات کے کوائف درست طور پر درج نہ کرپائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قدر وسیع منصوبے کی تکمیل، مشرق و مغرب کے کتب خانوں میں موجود اسلامی ادبی آثار کا احاطہ کسی ایک فرد کے بس کی بات ہی نہ تھی، چناں چہ بروکلمان کی تالیف منظرِ عام پر آنے کے بعد علمی حلقوں میں اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نئی معلومات اور جدید مطالعات کی روشنی میں اس کتاب پر نظر ثانی کی جائے، لہٰذا پروفیسرفؤ ادسزگین نے بروکلمان کی کتاب کے باریک بینی سے مطالعے کے بعد مشرق ومغرب کے کتب خانوں میں موجود اسلاف کے علمی و ادبی آثار کا کھوج لگایا اور تاریخِ ادبیات عربی (تاریخ التراث العربی) سے متعلق کارل بروکلمان کے علمی منصوبے کو بڑی اہم پیش رفت سے ہم کنار کیا۔ پروفیسر فؤ اد سزگین نے اس عظیم الشّان منصوبے کا آغاز بروکلمان کی کتاب کے ضمیمے کے طور پر کیا۔ تاہم، بعد میں یہ ایک مستقل علمی منصوبے کی حیثیت اختیار کرگئی۔ ان کی سعیِ پیہم کا ثمرہ، جرمن زبان میں ان کی مذکورہ تالیف ’’تاریخ علوم عربی واسلامی‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔17جِلدوں پرمشتمل اس کتاب کی پہلی جِلد1967ء اور آخری 2015ء میں شایع ہوئی۔ اٹھارہویں جِلد پر کام کے دوران زندگی نے وفا نہ کی اور سفر آخرت پر روانہ ہونے کے باعث اٹھارہویں جلد کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچاسکے۔ پروفیسرفؤ ادسزگین کی یہ مایہ ناز تصنیف ابتدائے عہدِ اسلام سے لے کردورِ جدید تک مختلف علوم و فنون (دینی، سماجی اور تہذیبی) کے سرمائے کا ایک فاضلانہ جائزہ ہے۔ اس کتاب کا مقصد قرآن، حدیث، تاریخ، فقہ، عقائد، تصوّف، شاعری، لغت، نحو، بلاغت، طب، علم الحیوان، کیمیا، نباتیاب، زراعت، ریاضیات، فلکیات، احکام النجوم، جہاز رانی، آثار العلویہ، فلسفہ، منطق، نفسیات، اخلاق، سیاسیات، علم الاجتماع، جغرافیہ، طبیعات، ارضیات اور موسیقی، جیسے متنوع میدانوں میں مسلمانوں کے کام کا تعارف کروانا اور ان علوم پر دنیا بھر میں پائے جانے والے عربی مخطوطات کی نشان دہی کرنا ہے۔
پروفیسر فؤ ادسزگین نے تاریخِ ادبیات عربی کی تالیف کے علاوہ مشرق و مغرب کے عجائب خانوں میں ایسے سیکڑوں سائنسی آلات کا کھوج لگایا، جو مسلم فضلا اور سائنس دانوں نے ایجاد یا اختراع کیے تھے۔ انہوں نے سائنسی علوم وفنون کی تاریخ میں ’’مسلمان علماء کے کارناموں‘‘ کے موضوع پر مختلف جامعات اور مؤقر علمی مجالس کے زیراہتمام وقتاً فوقتاً علمی خطبات میں علوم وفنون (خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی) کے ارتقاء کے حوالے سے مسلمان علماء کی مساعی کے ثمرات اورعلمی دنیا پر ان کے اثرات و نتائج بیان کیے۔ نیز، علوم و فنون کے ارتقاء کی تاریخ میں اسلامی تہذیب کا صحیح صحیح مقام متعین کرنے کی سعی کے ساتھ مغربی مستشرقین کی کج نظری، تعصّب وعناد اور کذب بیانیوں کو بھی علمی اعتبار سے رَد کیا ہے۔ اس سلسلۂ خطبات کی ایک اہم کڑی، تاریخِ علوم و فنون پر ان کے وہ خطبات ہیں، جو انہوں نے1979ء میں سعودی عرب کی جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کی دعوت پر ریاض میں دیے۔
فرینکفرٹ میں قیام کے دوران پروفیسر فؤ اد سزگین کا ایک دوسرا اہم کارنامہ، گوئٹے یونی ورسٹی میں معہد تاریخ العلوم العربیہ والاسلامیہ Institute of the History of the Arab Islamic Sciences)) اور سائنسی علوم و فنون میں مسلمانوں کی ایجادات و اختراعات سے متعلق ایک عجائب خانہ (Museum of the History of Arab-Islamic Sciences) کا قیام بھی ہے۔ 1979ء میں سعودی عرب کی شاہ فیصل فاؤنڈیشن (مؤسّسہ ٔملک فیصل) کی طرف سے اسلامی ادبیات میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ میں ملنے والی خطیر رقم انہوں نے تاریخِ علومِ اسلامیہ و عربیہ کے میدان میں تحقیق کے فروغ کے لیے وقف کردی۔ پھر 1982ء میں کچھ عرب اصحابِ خیر کے تعاون سے گوئٹے یونی ورسٹی، فرینکفرٹ میں معہد تاریخ العلوم العربیہ والاسلامیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرکے اپنی جہد و سعی سے اسلامی و عربی علوم و فنون پر مخطوطات کا ایک بڑا مرکز بنادیا۔بعدازاں، اس مرکز میں جمع شدہ مخطوطات کی تعداد پینتالیس ہزار تک پہنچ گئی۔ اس ذخیرے میں بہت سے مخطوطات ایسے ہیں، جن کا کوئی دوسرا نسخہ دستیاب نہیں۔ بعدازاں، اسی ادارے کے زیرِاہتمام ایک عجائب خانہ قائم کیا، جہاں مسلمان سائنس دانوں کے ایجاد کردہ آٹھ سو کے لگ بھگ سائنسی آلات کے نہ صرف نمونے یکجا کیے، بلکہ تحریری مآخذ کی بنیاد پر ان آلات کے توضیحی نقشے اورگوشوارے بھی مرتّب کرکے اس میوزیم کی زینت بنائے۔ مزیدبرآں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ کی بیداری سے قبل مسلمان علماء اور سائنس دانوں نے جو پیش رفت کی، اس کی تاریخ مرتّب کرکے شایع کی۔ غرض یہ کہ پروفیسر سزگین کی زندگی، پیہم جہد و ریاضت سے عبارت تھی۔ ستّر برس کی عمر تک روزانہ سترہ اٹھارہ گھنٹے تحقیق و تصنیف میں مشغول رہتے۔ وہ مشرق و مغرب کی بیش تر زبانوں، بہ شمول عبرانی، لاطینی اور جرمن سے واقفیت رکھتے تھے۔ 60 سے زائدممالک کے کتب خانوں کا مطالعاتی دورہ کیا اور ان میں موجود علمی آثار و نوادرات کا کھوج لگایا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ انہوں نے اپنی تحقیقات میں تاریخی و دستاویزی شواہد کی بناء پر بعض انکشافات بھی کیے، مثلاً یہ کہ ’’1420ء میں پہلے پہل مسلمان جہاز راں، امریکا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔‘‘ اس سے کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے دعوے کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔
ترکی میں جب رجب طیب اردوان کی حکومت برسرِاقتدار آئی اور ترک معاشرے میں وسیع و ہمہ گیر تبدیلی کا آغاز ہوا، تو پروفیسرفؤ ادسزگین 2008ء میں جرمنی میں اپنا قیام ترک کرکے وطن واپس لوٹ آئے۔ 2008ء میں رجب طیب اردوان کی حکومت کے تعاون سے استنبول (گل خانہ پارک) میں تاریخِ اسلامی سائنسی علوم و ٹیکنالوجی ((Museum of Islamic Sciences and Technology History) قائم کیا، جس میں مسلمان سائنس دانوں کی تقریباً700 ایجادات و اختراعات کے نمونے رکھے گئے۔2010ء میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات کی تاریخ پر تحقیق کی غرض سے ایک ریسرچ فاؤنڈیشن قائم کی۔ 2013ء میں سلطان محمد وقف یونی ورسٹی میں معہد البحوث للتاریخ العلوم الاسلامیہ (انسٹی ٹیوٹ آف دی ہسٹری آف سائنس اِن سلام) کی بنیاد رکھی اور 2015ء میں ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ایک اشاعتی مرکز قائم کیا۔ وطن واپس آنے کے بعدانہیں ایک شدید ابتلا سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ انہوں نے زندگی بھر کا حاصل یعنی فرینکفرٹ سے اپنے ذاتی کتب خانے (ذخیرہ ٔ مخطوطات نیز، دیگر نوادرات) کو ترکی منتقل کرنا چاہا، تو جرمن حکومت نے اس کا کثیر حصّہ نہ صرف ضبط کرلیا، بلکہ پروفیسرفؤ ادسزگین پرغبن، خوردبرد اور نوادرات چرانے کے الزام میں مجرمانہ تفتیش کا آغاز بھی کردیا۔ اگرچہ بعدازاں جرمن حکام کی طرف سے سنگین نوعیت کے الزامات واپس لے لیے گئے، تاہم کتابوں اور ذخیرۂ مخطوطات کی ملکیت کا قضیّہ تاحال معلّق چلا آرہا ہے۔ جرمن حکام اسے جرمنی کی پبلک پراپرٹی قرار دیتے ہیں۔ چناں چہ ایک انتظامی عدالت نے اس ذخیرے کی بیرونِ ملک منتقلی پر قدغن عاید کر رکھی ہے اور معہدِ تاریخ العلوم العربیہ والاسلامیہ میں واقع پروفیسرفؤ ادسزگین کے دفتر کی تالا بندی کر دی ہے۔ اس سلوک کا ایک اہم سبب گزشتہ ایک دہائی سے ترکی اور جرمنی کے مابین کشیدہ تعلقات بھی ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے پروفیسرفؤ ادسزگین کا تحقیقی و تصنیفی کام حد درجہ متاثر ہوا اور وہ اپنی کتاب ’’تاریخ علوم عربیہ و اسلامیہ‘‘ کی اٹھارہویں جِلد مکمل نہ کرپائے۔ پروفیسرفؤ ادسزگین نے، جو درحقیقت ترکی النسل تھے، جرمنی میں رہ کر وہاں کے اور دیگر مغربی ممالک کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان کے کارناموں کو مغرب اور عالمِ عرب میں بھی سراہا گیااور متعدد ایوارڈز اور اسناد سے نوازا گیا۔ ترکی حکومت نے ان کی علمی و تحقیقی خدمات کے صلے میں سال2019ء کو ’’فؤ ادسزگین کا سال‘‘ قرار دیا ہے، جس کے دوران ان کے بارے میں مختلف کانفرنسز اور پروگرامز منعقد کیے جائیں گے۔
دنیائے اسلام کے اس ممتاز مؤرخ اور دانش وَر کی خدمات اور قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے جنازے میں صدر جمہوریہ، رجب طیّب اردوان کے ساتھ حکومت کے بڑے ذمّے دار موجود تھے۔ بلاشبہ، پروفیسر فؤاد سزگین کا کارنامہ حیات، محققّین کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اس شان دار علمی روایت کے امین تھے، جس کی بنیاد مسلمانوں کے عہدِ درخشاں میں پڑی تھی۔ انہوں نے تنِ تنہا پیہم جہد و ریاضت سے اس قدر کام کرڈالا، جو بڑے بڑے علمی اداروں کے کرنے کا تھا۔
(مضمون نگار، شعبہ اردو، دائرہ معارفِ اسلامیہ، پنجاب یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں)