• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’اٹل بہاری واجپائی‘‘ بھارتی سیاست کا ایک طویل باب

16اگست 2018ء کو اٹل بہاری واجپائی کی موت کے ساتھ ہی بھارتی سیاست کا ایک طویل باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ مرنے والے کے بارے میں عام طور پر اچھی باتیں ہی کہی جاتی ہیں، اسی لیے بین الاقوامی رہنمائوں کی طرف سے بھارتی حکومت کو بھجوائے گئے تعزیتی پیغامات اچھے ہی تھے، تاہم خطّے کی سیاست سمجھنے کے لیے ہمیں واجپائی کی شخصیت اور اُن کی سیاسی جدوجہد کا غیر جذباتی جائزہ لینا ہوگا تاکہ وہ پس منظر نمایاں ہو سکے، جس میں واجپائی نے سیاست کی اور بہت سی کام یابیاں اور ناکامیاں اُن کے نام رہیں۔ اس اَمر میں کوئی شک نہیں کہ واجپائی ایک شان دار مقرّر، ایک اعلیٰ پائے کے مدبّر ہونے کے ساتھ، ایک راسخ العقیدہ ہندو بھی تھے۔ سو، واجپائی پر گفتگو کرنے سے پہلے آیئے ،بیس ویں صدی کے نصف آخر میں بھارت کی سیاست کے اچھے اور بُرے پہلوئوں پر ایک نظر ڈالیں۔ بھارتی سیاست کا نسبتاً اچھا پہلو انڈین نیشنل کانگریس کے اُن رہنمائوں نے پیش کیا ،جن میں جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ شامل تھے، مگر یہ دَور 1960ء کے عشرے کے بعد تقریباً ختم ہو گیا۔ اسے ہم نسبتاً اچھا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ کانگریس نے بھارت میں سیکولر آئین نافذ کیا اور بٹوارے کے بعد ہونے والے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ بڑا مشکل وقت تھا، جب کہ تقسیمِ ہند کے زخم بھی تازہ تھے۔ نیز، پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ بننے جا رہا تھا، جس کے سبب بھارت سے بھی ایک ہندو ریاست بنانے کے مطالبات ہونے لگے تھے۔ کانگریس پر یہ دبائو زیادہ تر ہندو بنیاد پرست تنظیموں کی طرف سے ڈالا جا رہا تھا، جن میں’’ آر ایس ایس‘‘ یا’’ راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ نمایاں تھی۔ گو کہ سیاسی رہنما ماضی میں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر چکے تھے، مگر جس طرح آرایس ایس ہندومت کی ترویج چاہ رہی تھی، کانگریس کو یہ قبول نہ تھا۔ ان حالات میں گوالیار کا ایک جوان مُلکی سیاست پر ابھرتا ہے اور آر ایس ایس میں سرگرم ہو جاتا ہے۔

واجپائی کا ہندو انتہاپسندی سے تعلق نیا نہیں تھا، کیوں کہ وہ اور اُن کے والد، دونوں آریہ سماج تحریک میں رہ چکے تھے، جو کئی ہندو بنیاد پرست اور قوم پرست تحریکوں کی ماں تھی۔1957ء میں واجپائی’’ بھارتیا جن سنگھ‘‘ کے ٹکٹ پر پارلیمان کے رُکن منتخب ہوئے، جو کہ ایک طرح سے’’ بھارتیا جنتا پارٹی‘‘ کا آغاز تھا۔ جن سنگھ کو 1951ء میں آرایس ایس کے سیاسی بازو کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے قیام میں ایس پی سکھر جی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب واجپائی نے’’ جن سنگھ‘‘ میں شمولیت اختیار کی، تو اُس وقت یہ تنظیم بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے مطالبے پر عمل پیرا تھی اور چاہتی تھی کہ ہندو ثقافت کو نافذ کر کے ایک مضبوط ہندو ریاست قائم کی جائے، جسے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس طرح 1960ء کے عشرے کے وسط تک بھارت کی سیاست کا اچھا پہلو زوال پزیر ہو چکا تھا اور بُرا پہلو سامنے آ رہا تھا۔ اس عمل کو دو باتوں نے بڑھاوا دیا۔ ایک 1964ء میں نہرو کی موت اور دوسرا 1965ء میں پاک، بھارت جنگ۔ نہرو اعلانیہ سیکولر تھے اور مُلک میں مذہبی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ نہرو کی موت نے پاکستانی آمر، جنرل ایّوب خان کو موقع دیا کہ وہ کشمیر میں’’ آپریشن جبرالٹر‘‘ شروع کر دیں، جس کا نتیجہ پاک، بھارت جنگ کی صُورت نکلا۔ یہ جنگ بڑی تباہ کُن ثابت ہوئی، کیوں کہ دونوں مُلکوں کے نقصانات بھی ہوئے اور پھر کبھی تعلقات اس سطح پر نہ آ سکے، جو 65ء کی جنگ سے پہلے تھے۔ افسوس ناک طور پر اس جنگ کو دونوں طرف سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

1967ء تک’’ جن سنگھ‘‘ کو شمالی بھارت کے ہندی بولنے والے علاقوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہو چکی تھی اور اگلے دس سال میں کانگریسی حکومت کو ہٹا کر جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہونی تھی۔ اندرا گاندھی کا گیارہ سالہ دَورِ حکومت، جو 1966ء سے 1977ء تک چلا، اُس نے بھارتی سیاست کے بچے کُھچے اچھے پہلوئوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ گو کہ اندرا گاندھی نے بھارت میں دائیں بازو کے عناصر کے خاتمے کی کوشش کی، مگر اس کے نتیجے میں دایاں بازو مزید مضبوط ہوا۔ اندرا نے مُلک میں ہنگامی حالات کا اعلان کیا، تو واجپائی نے اُس کی شدید مخالفت کی۔1977ء کے انتخابات میں کانگریس کا عارضی صفایا ہو گیا اور’’ جنتا پارٹی‘‘ نے حکومت بنائی، جس میں واجپائی وزیرِ خارجہ بنے۔ گویا 30 سال کی سرگرم عملی سیاست کے بعد، بالآخر واجپائی حزبِ اقتدار میں تھے اُور انہوں ہی نے وزیرِ خارجہ کے طور پر بھارت کو امریکا کے قریب کرنے کی کوشش کی۔ نیز، کانگریس کی سوویت نواز پالیسی کو بھی تبدیل کیا۔ اُس وقت کے امریکی صدر، جِمی کارٹر نے 1978ء میں بھارت کا دَورہ کیا اور واجپائی سے دوستانہ تعلقات قائم کیے، مگر یہ دوستی عارضی ثابت ہوئی، کیوں کہ جولائی 1979ء میں جنتا پارٹی کی حکومت اندرونی تضادات کا شکار ہو کر ختم ہو گئی۔ حکومت کے خاتمے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنتا پارٹی کے اتحادی،’’ جن سنگھ‘‘ کے منتخب ارکانِ پارلیمان کی آرایس ایس میں سرگرمیوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ آرایس ایس ،شروع سے ایک مذہبی انتہاپسند جماعت رہی ہے اور اس کے ہی ایک رُکن نے 1948ء میں مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا۔ اس پورے عرصے میں واجپائی آرایس ایس کے نہ صرف حامی، بلکہ سرگرم کارکن بھی رہے تھے اور 1980ء میں اُنہوں نے’’ جن سنگھ‘‘ کے ساتھ مل کر’’ بھارتیا جنتا پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی، جس میں اُن کے ساتھ ایل کے ایڈوانی اور مرالی منوہر جوشی وغیرہ شامل تھے۔ 

یہ سب ہندو توا یعنی ہندوپن پر فخر کرتے تھے اور پورے بھارت میں ہندوتوا کا نفاذ چاہتے تھے۔ اُن کے مطابق، بھارت کو صرف ہندو اقدار کی ترویج کرنی چاہیے اور اس کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چوں کہ مسلمان اپنے لیے ایک الگ مسلم ریاست پاکستان بنا چُکے ہیں، اس لیے ہندوئوں کو بھی اپنے لیے ایک ہندو ریاست بنانے کا حق حاصل ہے۔ واجپائی تقریباً 60سال کے ہو چُکے تھے اور وہ کانگریس کی سیکولر سیاست کے شدید ناقد رہے تھے۔ اگر بھارت کی سیاست میں سیکولرازم کچھ اچھی بات تھی، تو واجپائی اُس کے مخالف تھے اور ایک طرح سے آرایس ایس اور جن سنگھ کی بی جے پی کے ذریعے نمایندگی کر رہے تھے۔

1980ء کے عشرے میں دو مزید عوامل کارفرما ہوئے، جنہوں نے ہندو مذہبی سیاست کو فروغ دیا۔ ایک تو بھارتی پنجاب میں سِکھ علیٰحدگی کی تحریک’’ خالصتان‘‘ کے نام سے شروع ہوئی اور دوسرے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اسلامی نظام کے نفاذ کی نام نہاد کوششیں تیز کردیں۔ ایک طرف سِکھ انتہاپسندی اور علیٰحدگی کی تحریک نے ہندو مذہبی جذبات کو بھڑکایا، تو دوسری طرف جنرل ضیاء الحق کے پاکستان کو مکمل اسلامی بنانے کے اقدامات نے بی جے پی کو جواز فراہم کیا کہ وہ بھی بھارت کو مکمل ہندو بنانے کے مطالبات تیز کر دے۔ 

اس طرح ہندو انتہاپسندی کو بڑھاوا ملا۔1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو انتخابات میں ہم دردی کے ووٹ مل گئے، ورنہ عین ممکن تھا کہ 1980ء کے عشرے کے وسط ہی میں بھارتیا جنتا پارٹی انتخابی کام یابیاں حاصل کر لیتی۔ اس دَوران کشمیر میں دوبارہ تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا اور دوسری طرف، جب بھارتی وزیرِ اعظم، راجیو گاندھی نے سارک کانفرنس کے سلسلے میں پاکستان کا دَورہ کیا اور وزیرِ اعظم، بے نظیر بھٹّو سے ملاقات کی، تو پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیا، جس کا بھارت میں واجپائی نے فائدہ اٹھایا۔ پھر 1990ء کے عشرے کے آغاز میں بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندو مذہبی جذبات کو مزید بھڑکایا اور اس مقصد کے لیے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا نعرہ لگا دیا۔ 1991ء میں واجپائی کی پارٹی نے 114نشستیں حاصل کیں اور 4 ریاستوں میں حکومتیں بھی بنا لیں۔ 

اس پر مزید یہ کہ دسمبر 1992ء میں بی جے پی سے منسلک گروہوں نے بابری مسجد شہید کر دی، جس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں سیکڑوں افراد مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ اس سے مذہبی تشدّد کو مزید بڑھاوا ملا اور بی جے پی کے رہنمائوں نے رتھ یاترائیں شروع کر دیں، جن کا مقصد رام مندر کا قیام تھا۔ 1996ء کے انتخابات میں بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور واجپائی اس بار وزیرِ اعظم بن بھی گئے، لیکن صرف 15 دن بعد ہی اُنہیں اکثریت نہ ملنے پر استعفا دینا پڑا۔ 1998ء میں واجپائی پھر وزیرِ اعظم بنے اور13 ماہ اس عُہدے پر رہے۔1999ء کے انتخاب میں واجپائی تیسری بار وزیرِ اعظم بنے اور پہلے غیر کانگریسی وزیرِ اعظم بھی، جو اپنی 5سالہ مدّت پوری کر سکے۔ واجپائی نے1998 ء سے 2004ء تک وزیرِ اعظم رہتے ہوئے جو سب سے منفی اور غلط کام کیا، وہ برّصغیر کو ایٹمی دوڑ میں جھونکنا تھا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکا کر کے وہ بھارت کو ایٹمی بالادستی دینا چاہتے تھے، مگر ایسا نہ کر سکے۔اُس وقت واجپائی تقریباً 75سال کے تھے، مگر جوہری بالادستی کا خواب لیے ہوئے تھے۔ گو کہ بعد میں اُنہوں نے پاکستان کا’’ بس دَورہ‘‘ بھی کیا اور جنرل پرویز مشرف کا دہلی میں استقبال بھی، مگر ایٹمی دھماکوں نے اُن کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور پاک، بھارت تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ واجپائی نے مُلکی سطح پر کچھ معاشی کام یابیاں حاصل کیں اور پاکستان سے تعلقات میں بہتری کی کوششیں بھی کیں، مگر اُن کی زندگی کا بہت بڑا حصّہ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی پھیلانے میں گزرا، جس سے صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اچھا اور عظیم رہنما ہمیشہ مذہبی تنگ نظری اور قوم پرستانہ سیاست سے بالاتر ہوتا ہے، اس لیے واجپائی کو ایک عظیم رہنما قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کاش کہ اُن کی سیاست میں آفاقی پیغام ہوتا اور کاش وہ ایٹمی دھماکے کیے بغیر امن کی بات کرتے، تو شاید آج اُن کی عزّت کہیں زیادہ ہوتی۔

تازہ ترین
تازہ ترین